نیویارک کے میئرشپ کے ڈیموکریٹ امیدوار زہران ممدانی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے معروف پاکستانی انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی شاعری کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی ایک مشہور و معروف نظم کے چند اشعار پڑھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ فیض کی شاعری روز پڑھتے ہیں۔ سب کو فیض کو پڑھنا چاہیے کیونکہ اکثر جب ہم اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے آپ کو دائروں میں محدود کرلیتے ہیں پھر بطور لیڈر ہماری سوچ اور اعمال چھوٹے ہوجاتے ہیں
یہ بیان انہوں نے رواں برس 23 مارچ کے روز ایک تقریب میں خطاب کے دوران دیا تھا، جسے امریکین پاکستان ایڈووکیسی گروپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جسے اب سراہا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ حلقے جو ادب، سیاست اور معاشرتی شعور کو یکجا کرنے کے قائل ہیں۔
تقریب میں زہران ممدانی نے فیض کی معروف نظم ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ پیش کی۔ یہ نظم حق گوئی، آزادیٔ رائے اور جبر کے خلاف مزاحمت کا طاقتور استعارہ ہے۔ اس کے اشعار دہائیوں سے سماجی تحریکوں اور عوامی بیداری کا حصہ رہے ہیں، اور آج بھی نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔
زہران ممدانی کا فیض سے لگاؤ صرف شاعری کی محبت نہیں بلکہ ایک سیاسی وژن کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے نزدیک قیادت محض پالیسی یا اختیار کا نام نہیں بلکہ انصاف پسندی، وسیع النظری اور عوامی خدمت کا وعدہ ہے۔ فیض کی شاعری انہیں یاد دلاتی ہے کہ اقتدار میں آ کر بھی حق اور سچ بولنے کا حوصلہ برقرار رہنا چاہیے۔
موجودہ دور میں سیاستدانوں کا شاعری اور ادب سے رہنمائی لینا ایک نایاب رویہ ہے۔ زہران ممدانی کی یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سیاست اور ادب یکجا ہو جائیں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
فیض کی وہ نظم جو سب سے زیادہ انقلابی جذبے، عوامی امنگوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، اہلِ ذوق کے لئے یہاں پیش کی جارہی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے