انیسویں صدی کا وکٹورین دور صرف صنعتی ترقی اور سائنسی ایجادات کا زمانہ نہیں تھا، بلکہ یہ تہذیب و تمدن اور سماجی آداب کا بھی سنہری دور تھا۔ خاص طور پر ضیافتیں اس دور کی سماجی زندگی کا مرکز سمجھی جاتی تھیں جہاں کھانے سے زیادہ آدابِ محفل کی اہمیت تھی۔

مہمانوں کی نشست سے لے کر کھانے کے طریقے، حتیٰ کہ میزبان کی مسکراہٹ تک، سب کچھ ایک فن کی مانند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہم وکٹورین دور کی ضیافتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ محض تاریخ نہیں لگتی بلکہ ایک ایسا شاندار منظرنامہ ابھرتا ہے جو ہمیں اُس زمانے کی شائستگی، نزاکت اور سماجی حسن کی جھلک دکھاتا ہے۔

دعوت نامہ اور وقت کی پابندی

دعوت نامے کی قبولیت یا انکار میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جاتی تھی۔ اگر دعوت قبول کر لی جاتی تو پھر انتہائی مجبوری کے بغیر اسے ترک کرنا بدتمیزی شمار ہوتا۔

مہمانوں کو ہدایت دی جاتی تھی کہ وہ ’بالکل وقت پر‘ پہنچیں، اور بعض ماہرین آداب کے مطابق دیر سے آنے کے بجائے نہ آنا بہتر تھا، بشرطیکہ معذرت بھیج دی جائے۔

مہمانوں کو میز تک لانے کا طریقہ

دعوت کے موقع پر ایک اہم رسم ’Taking Down to Dinner‘ کہلاتی تھی۔ میزبان ہر صاحبِ مجلس کو ایک خاتون کے ساتھ متعارف کراتا تاکہ وہ اسکے بازو تھام کر کھانے کے کمرے میں لے جائے۔ اس دوران ترجیح کے اصول لاگو ہوتے، مثلاً شادی شدہ خواتین کو غیر شادی شدہ پر فوقیت دی جاتی اور بڑی عمر کی خواتین کم عمر پر مقدم سمجھی جاتیں۔

نشستوں کی ترتیب

میز پر نشستوں کی تقسیم ایک نہایت حساس معاملہ تھا۔ میزبان خاتون میزکے ایک سرے پر بیٹھتی اور میزبان مرد میز کے دوسرے سرے پر۔ باقی مہمانوں کو ان کے سماجی رتبے کے مطابق بٹھایا جاتا۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کے علاوہ عام طور پر شوہر اور بیوی کو الگ بٹھایا جاتا تاکہ زیادہ میل جول اور بات چیت ہو سکے۔

باتونی اور دلچسپ افراد کو میز کے درمیان بٹھایا جاتا تاکہ سب مستفید ہوں، جبکہ ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کو ساتھ بٹھانا ناپسندیدہ تھا کیونکہ وہ محفل کو محدود گفتگو میں الجھا سکتے تھے۔

کھانے کا طریقہ کار

ضیافت کا آغاز ہمیشہ سوپ سے ہوتا، جس کے بعد مچھلی اور پھر گوشت، مرغی اور دیگر خاص پکوان پیش کیے جاتے۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ رواج عام ہو گیا کہ گوشت کاٹنے کا کام باورچی خانے یا سائیڈ بورڈ پر کیا جائے تاکہ میز پر سکون قائم رہے۔

میوے اور پھل پیش کرتے وقت مرد حضرات خواتین کی مدد کرتے، مثلاً انگور یا چیری پیش کرنا یا سیب چھیل کر دینا۔ تاہم کسی کو ’مدد کرنے‘ کی پیشکش براہِ راست کرنا بدتہذیبی شمار ہوتی۔ مناسب جملے ہوتے، ’کیا میں آپ کو کچھ مٹن پیش کروں؟‘۔

وکٹورین دور میں یہ بھی رواج تھا کہ کھانے کے لیے سب کا انتظار کرنے کے بجائے جس کے سامنے کھانا رکھا جائے، وہ فوراً شروع کرے۔ دیر کرنا پرانی اور نامناسب عادت سمجھی جاتی۔

خواتین اور مشروبات

مشروبات پیش کرنے کی ذمہ داری نوکروں پر تھی لیکن مرد حضرات کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے ساتھ بیٹھی خواتین کے گلاس بھرتے رہیں۔ خواتین خود مشروب طلب نہیں کر سکتی تھیں لیکن انکار کر سکتی تھیں۔

میزبان اور میزبان خاتون کی ذمہ داریاں

اصل ذمہ داری میزبان خاتون پر ہوتی تھی۔ اسے سکون، وقار اور خوش اخلاقی کے ساتھ سب مہمانوں کو مطمئن رکھنا لازم تھا۔ اگر باورچی مناسب نہ ہو تو باہر کے ریستوران سے کھانا منگوانا بھی قابلِ قبول تھا۔

سب سے اہم اصول یہ تھا کہ میزبان خاتون کو کسی بھی حادثے یا ناخوشگوار واقعے پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر قیمتی برتن ٹوٹ جائیں تو بھی وہ مسکرا کر محفل کا ماحول خوشگوار رکھے۔

وکٹورین ڈائننگ روم کی سجاوٹ

’کیسیل فیملی میگزین (1875)‘ کے مطابق مثالی ڈائننگ روم کو ’مناسب گرم درجہ حرارت، راحت اور مہمان نوازی‘ کی علامت ہونا چاہیے۔ سرخ، سبز یا بلوطی رنگ کے وال پیپرز موزوں سمجھے جاتے، اور اگر پینٹنگز ہوں تو ہلکے سبز یا پیچ بیک گراؤنڈ پر سجائی جائیں۔

قالین کے لیے ترکی قالین پسندیدہ تھا کیونکہ یہ دیدہ زیب اور مضبوط ہوتا۔ پردے بھاری کپڑے، جیسے اون، ریشم یا جرمن کوٹیلین سے تیار کیے جاتے۔ فرنیچر میں مہوگنی ترجیحی لکڑی تھی اور یکسانیت کا ہونا ضروری تھا۔

سائیڈ بورڈ کو کمرے کی ’اصل شان‘ کہا گیا ہے۔ اس پر صرف کارآمد چیزیں رکھی جاتیں جیسے چائے کا ڈبہ یا سرو کرنے کے برتن۔

وکٹورین دور کی ضیافتیں صرف کھانے پینے کا موقع نہیں بلکہ سماجی رتبے، تہذیب اور آداب کا امتحان تھیں۔ دعوت نامے سے لے کر نشستوں کی ترتیب، کھانے کے طریقہ کار سے لے کر میزبان کے رویے تک، ہر پہلو ایک باقاعدہ فن اور سماجی معیار کی علامت تھا۔ اس طرزِ زندگی نے وکٹورین معاشرت کو نہ صرف منفرد بنایا بلکہ آج بھی رسمی ضیافتوں کے آداب پر اثر انداز ہے۔

More

Comments
1000 characters