آج کل ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ڈیجیٹل دنیا اور گیجیٹس ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، اسمارٹ ڈیوائسز اور سوشل میڈیا نے ہمیں سہولتوں کی ایک نئی دنیا فراہم کر دی ہے، لیکن ان ہی سہولتوں کے ساتھ ساتھ پرائیویسی کے حوالے سے کئی پریشان کن معاملات بھی جنم لے چکے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اسمارٹ ٹی وی صرف ڈرامے، فلمیں اور خبریں ہی نہیں دکھاتا بلکہ آپ کی روزمرہ زندگی پر بھی نظر رکھ سکتا ہے؟

جی ہاں، یہ وہ حقیقت ہے جسے اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جدید اسمارٹ ٹی وی برانڈز نے سہولت کے نام پر ایسی خصوصیات شامل کی ہیں جن میں وائس کمانڈز، مائیکروفون، انٹرنیٹ ایکسیس، کیمرہ اور ٹریکرز شامل ہیں۔ یہ فیچرز بظاہر تو آپ کے تجربے کو بہتر بناتے ہیں لیکن اصل میں یہ آپ کے بارے میں معلومات جمع کر کے کمپنیوں کو بھیجتے ہیں۔ ان میں آپ کے براؤزر کا استعمال، ای میل ایڈریس، مقام، ادائیگی کی تفصیلات، ڈیوائس آئی ڈی اور حتیٰ کہ آپ کون سا پروگرام دیکھتے ہیں، سب کچھ شامل ہو سکتا ہے۔

براوزر کا استعمال: ایک آسان مگر خطرناک جال

کیا آپ نے کبھی اپنے اسمارٹ ٹی وی پر انٹرنیٹ براوزر کھولا ہے؟ بڑی اسکرین پر سب کچھ دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براوزر سائبر مجرموں کے لیے ایک ’کھلا دروازہ‘ ہے۔ نہ اینٹی وائرس، نہ وی پی این، نہ ہی وہ حفاظتی فیچرز جو آپ کے موبائل یا کمپیوٹر میں ہوتے ہیں۔ نتیجہ؟ کوئی بھی آپ کی آن لائن سرگرمی پر نظر رکھ سکتا ہے، چاہے وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہوں یا آن لائن بینکنگ۔

اب ذرا سوچیں، جب آپ اپنے اسمارٹ ٹی وی کا براؤزر استعمال کرتے ہیں تو آپ کے خیال میں یہ کتنا محفوظ ہے؟

یہی نہیں، اسمارٹ ٹی وی کے ساتھ استعمال ہونے والے اسٹریمنگ پلیٹ فارمز جیسے نیٹ فلکس، ایپل ٹی وی، روکو یا گوگل ٹی وی بھی آپ کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چاہے آپ ان میں سائن ان نہ بھی ہوں، تب بھی یہ آپ کے پسندیدہ چینلز اور ایپس کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں۔ کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف آپ کے مطلوبہ مواد کو بہتر بنانے کے لیے ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذاتی معلومات اشتہاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

عام طور پر ٹی وی میں نہ اینٹی وائرس ہوتا ہے، نہ وی پی این، نہ وہ حفاظتی اقدامات جو آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں ہوتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جسے سائبر حملہ آور استعمال کرتے ہیں اور آپ کے انٹرنیٹ ٹریفک پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو لازمی اپنے ٹی وی پر براؤزنگ کرنی ہے تو بہتر ہے کہ ایک وی پی این انسٹال کر لیں۔ یہ آپ کے انٹرنیٹ کو انکرپٹ کر دیتا ہے تاکہ کوئی بھی آپ کی آن لائن سرگرمی پر نظر نہ رکھ سکے۔

اے سی آر ٹیکنالوجی: آپ کیا دیکھتے ہیں سب رپورٹ ہوتا ہے

ایک اور اہم چیز ہے اے سی آر (ACR)، یعنی آٹومیٹک کانٹینٹ ریکگنیشن۔ یہ ٹیکنالوجی تقریباً ہر اسمارٹ ٹی وی میں موجود ہے اور یہ ہر سیکنڈ میں آپ کی اسکرین کے پیکسلز کا تجزیہ کرتی ہے تاکہ پتہ چل سکے آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ پھر یہ ڈیٹا کمپنیوں اور اشتہاری اداروں کو بھیج دیا جاتا ہے تاکہ آپ کے سامنے وہی اشتہارات لائے جائیں جو آپ کی پسند کے مطابق ہوں۔

بظاہر یہ نقصان دہ نہیں لگتا لیکن دراصل یہ آپ کی پرائیویسی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ خوش قسمتی سے آپ اس فیچر کو بند بھی کر سکتے ہیں۔ مختلف کمپنیوں کے ٹی وی میں یہ آپشن مختلف جگہوں پر ملے گا، مثلاً سام سنگ میں ’ویوونگ انفورمیشن سروسز‘ کو اَن چیک کرنا ہوگا، بعض سیٹس میں ’لمٹ ایڈ ٹریکنگ‘ کو آن کرنا ہوگا، جبکہ ایل جی اور سونی میں متعلقہ فیچرز کو بند کرنا پڑے گا۔

اینڈرائیڈ یا گوگل ٹی وی پر سائن اِن کرتے ہی گوگل آپ کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اگرچہ اسے مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں، لیکن آپ ایڈورٹائزنگ آئی ڈی کو ری سیٹ کر کے ٹریکنگ کو محدود کر سکتے ہیں۔

ہمیشہ سننے والا مائیکروفون اور دیکھتا ہوا کیمرہ

اب آتے ہیں سب سے نازک معاملے پر، یعنی کیمرہ اور مائیکروفون۔ جدید ٹی وی میں وائس کنٹرول اور کیمرہ بھی موجود ہوتا ہے۔ مائیکروفون اکثر اوقات ٹی وی کے آف ہونے کے بعد بھی متحرک رہتا ہے تاکہ یہ آپ کی کمانڈز سن سکے۔ لیکن یہی مائیکروفون کبھی کبھار وہ باتیں بھی سن سکتا ہے جو آپ نہیں چاہتے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی نے بھی ان خطرات سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہیکرز غیر محفوظ اسمارٹ ٹی وی کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔ وہ چینلز بدلنے، آواز اونچی یا کم کرنے اور حتیٰ کہ بچوں کو نامناسب مواد دکھانے تک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدترین صورت میں وہ ٹی وی کے کیمرے اور مائیکروفون کے ذریعے آپ کی جاسوسی بھی کر سکتے ہیں۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ نیا اسمارٹ ٹی وی خریدتے وقت اس کے فیچرز کو سمجھنا ضروری ہے، خاص طور پر کیمرہ اور مائیکروفون کو کنٹرول کرنے کا طریقہ۔ پاس ورڈز بدلتے رہیں، غیر ضروری فیچرز بند کریں اور اگر کیمرہ بند نہ ہو تو اس پر کالی ٹیپ لگا دیں۔ ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے جاری ہونے والی سکیورٹی اپ ڈیٹس پر بھی نظر رکھیں۔

More

Comments
1000 characters