بالی ووڈ کے عظیم ترین گلوکاروں میں شمار ہونے والے محمد رفیع کی زندگی کا سفر نہایت دلچسپ اور اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہا۔ لاہور کی گلیوں میں ایک فقیر کی مدھم تان سے متاثر ہو کر گلوکاری کی طرف مائل ہونے والے رفیع نے اپنی آواز کے سحر سے کروڑوں دل جیتے۔ مگر آزادی کے ہنگاموں میں انہیں اپنی ذاتی زندگی میں ایک بڑی قربانی دینی پڑی، جب ان کی پہلی اہلیہ نے پاکستان چھوڑنے سے انکار کردیا اور وہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔

محمد رفیع 1924 میں امرتسر کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں ایک گھومنے والے فقیر کی دھنوں نے ان کے دل میں گانے کا شوق پیدا کیا۔ بعد ازاں وہ استاد سے باقاعدہ موسیقی کی تربیت لینے لگے۔ ان کا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے تھا اور ان کے والد گلوکاری کو بطور پیشہ سخت ناپسند کرتے تھے۔ لیکن قسمت نے جلد ہی ان کے لیے نئے دروازے کھول دیے۔

AAJ News Whatsapp

لاہور ریڈیو کے ایک ملازم نے ان کی آواز کو پہچانا اور 1940 کی دہائی میں وہ ممبئی جا پہنچے۔ ابتدا میں ایک گانے کا معاوضہ محض 75 روپے ملتا تھا، لیکن یہی نغمے آگے چل کر انہیں بالی ووڈ کا سب سے بڑا گلوکار بنا گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیابی اور شہرت حاصل کرنے کے باوجود رفیع اکثر سوچا کرتے تھے کہ کہیں وہ گناہ تو نہیں کر رہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اس دنیا سے دور رکھنے کے لیے لندن بھیج دیا تاکہ وہ فلمی صنعت کے اثرات سے محفوظ رہیں۔

رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع کے مطابق ان کے والد نے بچپن لاہور میں گزارا اور وہیں اپنی کزن بشیرا سے شادی کی، لیکن تقسیم ہند کے بعد یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔

شاہد رفیع نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے والد کی زندگی پر مبنی ایک بایوپک بنا رہے ہیں جس کی ہدایت کاری امیش شکلا کریں گے۔ اس فلم میں محمد رفیع کے سفر کو بچپن سے لے کر آخری دنوں تک دکھایا جائے گا۔

شاہد کے مطابق ان کے والد کو گانے کا شوق آٹھ یا نو برس کی عمر میں ایک فقیر کی آواز سے ہوا، جو لاہور کی گلیوں میں ایک سادہ سا ساز بجا کر گاتا تھا۔ رفیع اکثر خاموشی سے اس کے پیچھے چلتے اور اس کی دھنیں یاد کر لیتے۔

ایک دن فقیر نے وجہ پوچھی تو ننھے رفیع نے کہا کہ وہ اس کی آواز کے دیوانے ہیں۔ فقیر نے ان کی آواز سن کر حیرت ظاہر کی اور دعا دی کہ یہ بچہ ایک دن بہت آگے جائے گا۔ خود رفیع نے بھی 1977 میں بی بی سی ہندی کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی موسیقی سے محبت اسی فقیر کی بدولت پروان چڑھی۔

شاہد نے مزید بتایا کہ ان کے دادا گانے کے سخت خلاف تھے اور کہا کرتے تھے: ”یہ ہمارا کام نہیں، یہ غلط ہے۔“ لیکن ان کی دادی ہمیشہ رفیع کا ساتھ دیتی رہیں ۔ بعد میں جب دادا نے رفیع کی آواز پنجابی فلم میں سنی تو خود مان گئے اور کہا: ”آخرکار موسیقی کی جیت ہوئی ہے۔“

رفیع کا خاندان ان کے بچپن میں لاہور منتقل ہوگیا، جہاں ان کے والد نے حجامت کی دکان کھولی۔ نوجوانی میں رفیع بھی داڑھیاں تراشا کرتے اور بال کاٹتے رہے، لیکن 1940 کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن کے ایک فرد نے ان کی آواز کو پہچانا اور یوں وہ ممبئی پہنچ گئے۔ اگرچہ تقسیم ہند سے پہلے وہ چند پنجابی فلموں کے لیے گا چکے تھے، مگر بالی ووڈ میں پہلا ہندی گیت انہوں نے 1945 میں ریکارڈ کیا۔

ذاتی زندگی میں تقسیم نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی پہلی اہلیہ بشیرا پاکستان میں رہنا چاہتی تھیں جبکہ رفیع نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا، جہاں ان کا کیریئر عروج پر جا رہا تھا۔ دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں، لیکن رفیع نے اپنے بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ بھارت لے جانے پر اصرار کیا۔

بعد میں انہوں نے بلقیس سے شادی کی اور ان کے سات بیٹے ہوئے۔ شاہد کے مطابق انہیں برسوں بعد علم ہوا کہ ان کا بڑا بھائی دراصل ان کی والدہ کا بیٹا نہیں تھا، لیکن والدین نے کبھی فرق محسوس نہیں ہونے دیا۔ بلکہ شاہد کے بقول، ان کی والدہ اس سے خاص محبت رکھتی تھیں اور وہ ہمیشہ سات بیٹوں میں ایک شمار ہوتا رہا۔

اپنی وفات سے کچھ ہفتے قبل، 1980 میں اسٹار اینڈ اسٹائل کو دیے گئے انٹرویو میں محمد رفیع نے جوانی اور ابتدائی جدوجہد پر بات کرتے ہوئے بتایا، میرا تعلق لاہور سے ہے اور میں ایک قدامت پسند خاندان میں پیدا ہوا۔ پندرہ برس کی عمر میں دوستوں کی محفلوں میں گاتا تھا۔ ایک محفل میں اداکار و فلم ساز ناصر خان نے میری آواز سنی اور بمبئی لے جا کر فلمی دنیا میں متعارف کروانے کی پیشکش کی۔

انہوں نے مزید کہا والد نے سختی سے انکار کیا کیونکہ وہ فلمی گلوکاری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اُس وقت میں اپنے استاد عبد الواحد خان (کیرانہ گھرانہ) سے کلاسیکی موسیقی سیکھ رہا تھا۔ بعد ازاں بڑے بھائی نے بڑی مشکل سے والد کو راضی کیا اور یوں مجھے بمبئی جانے کی اجازت ملی۔“

ماضی کو یاد کرتے ہوئے رفیع نے کہا: ”اس دور میں فلم سازی محض کاروبار نہیں بلکہ ایک روایت تھی۔ ابتدائی دنوں میں ایک گانے کا معاوضہ صرف 75 روپے ملتا تھا۔“

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کے ایل سہگل، جی ایم درّانی اور خان مستن جیسے بڑے گلوکار اُن دنوں مقبول تھے، لیکن سب نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ”مجھے یاد ہے، پہلی بار سہگل صاحب سے لاہور میں ملا جب وہ اسٹیج پر گانے آئے تھے۔ اچانک مائیک خراب ہوگیا اور مجھے کہا گیا کہ سامعین کو گانے سنا کر مصروف رکھوں۔ میری عمر پندرہ برس تھی۔ سہگل صاحب نے میری آواز سن کر دعا دی اور کہا کہ ایک دن یہ لڑکا بہت بڑا گلوکار بنے گا۔“

محمد رفیع نے اپنے 35 سالہ کیریئر میں ہزاروں نغمے گائے۔ 1980 میں محض 55 برس کی عمر میں وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن ان کی نرم و پرکیف آواز آج بھی امر ہے اور کروڑوں سننے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

More

Comments
1000 characters