ملازم کو کم عہدے کی ڈیسک دینے پر عدالت نے کمپنی کو 82 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا
کہتے ہیں انسان اپنی عزت خود کرواتا ہے، کیونکہ وقار کبھی تحفے میں نہیں ملتا، یہ رویے اور کردار سے کمایا جاتا ہے۔ جو اپنی خود داری پر سمجھوتہ نہیں کرتا، دنیا بھی اسے جھک کر سلام کرتی ہے۔ عہدہ، دولت یا کرسی وقتی ہیں، اصل عزت وہ ہے جو انسان اپنے رویے اور وقار سے منواتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یوکے میں کام یا ملازمت میں عزت اور وقار (Dignity at Work) کو ایک قانونی معیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہاں کے قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی بھی ملازم کو صرف تنخواہ ہی نہیں بلکہ اس کے وقار اور عہدے کے تحفظ کا بھی حق حاصل ہے۔
اگر کسی ملازم کو لگے کہ اسے کم تر حیثیت دی گئی ہے، ذمہ داریاں گھٹا دی گئی ہیں یا اس کے وقار کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تو وہ براہِ راست ’ایمپلائیمنٹ ٹریبیونل‘ میں مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔ عدالت پھر یہ دیکھتی ہے کہ آیا یہ اقدام ڈیموشن یا ان فیئر ٹریٹمنٹ کے برابر ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ثابت ہو جائے تو کمپنی کو ہرجانہ دینا پڑتا ہے، چاہے ملازم کی تنخواہ برقرار ہی کیوں نہ رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں ”ڈگنِٹی ایٹ ورک“ کو ایک سنجیدہ قانونی حق مانا جاتا ہے۔
لندن میں ایسے ہی ایک غیر معمولی مقدمے نے سب کی توجہ کھینچ لی، جہاں ایک سینئر اسٹیٹ ایجنٹ کو صرف اس وجہ سے 21 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ہرجانہ ملا کہ اسے دفتر میں بیٹھنے اور کام کرنے کے لئے ’کم حیثیت والا ڈیسک‘ دیا گیا تھا، جس سے اس کے وقار اور عہدے پر سوال اٹھا۔
53 سالہ نِکولس واکر 2015 سے ہارٹفورڈ شائر میں واقع Robsons Estate Agents کے ساتھ وابستہ تھے۔ اتنے تجربے اور محنت کے بعد وہ نہ صرف ایک معتبر ملازم سمجھے جاتے تھے بلکہ برانچوں کے منیجر بھی تھے۔ ان کا اپنا ایک مقام اور ایک الگ پہچان تھی۔
2022 میں انہیں کمپنی کی دوسری برانچ بھیج دیا گیا۔ ایک سال بعد جب ان کے جانشین نے استعفیٰ دیا تو واکر کو دوبارہ پرانی برانچ پر بھیج دیا گیا۔
لیکن جب کمپنی نے انہیں دوبارہ ان کی پرانی برانچ پر بھیجا، وہاں ایک ایسی تبدیلی ان کی منتظر تھی جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا۔
اس برانچ میں ایک خاص ’بیک ڈیسک‘ تھی۔ یہ محض لکڑی کی میز نہیں تھی بلکہ برسوں سے ایک علامت سمجھی جاتی تھی۔ یہ صرف برانچ منیجر کے لیے مخصوص تھی۔ کاغذات، لیجرز، اور وہ تمام نشانیوں کے ساتھ جو اختیار اور قیادت کی علامت ہوتے ہیں۔
مگر اس بار جب واکر واپس لوٹے تو انہیں یہ ڈیسک دینے کے بجائے، ان کے جونیئر کولیگ کو وہاں بٹھا دیا گیا۔ اور واکر کو ایک عام سا ڈیسک دے دیا گیا۔
اب ایک ایسے شخص کے لیے جو برسوں تک قیادت کی پوزیشن پر رہا ہو، کیا یہ تبدیلی معمولی لگے گی؟ واکر کو صاف محسوس ہوا کہ یہ ان کی عزت اور وقار پر چوٹ ہے۔
واکـر نے اپنی ناراضگی ظاہر کی۔ مگر بجائے سننے اور سمجھنے کے، سیلز ڈائریکٹر نے معاملے کو ہلکا کر دیا اور طنزیہ جملہ کسا، ’تمہاری عمر کا آدمی ڈیسک کے لیے اتنی بڑی بات کر رہا ہے، یقین نہیں آ رہا!‘
یہ جملہ آگ پر تیل کا کام کر گیا۔ واکر کو لگا کہ نہ صرف ان کا عہدہ بلکہ ان کی عزت بھی مجروح ہوئی ہے۔ اسی وقت انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن 2 دن بعد واکر نے سوچا کہ شاید جذبات میں فیصلہ کر لیا، اور استعفیٰ واپس لینے کی کوشش کی۔ مگر کمپنی نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ بلکہ، الٹا ان کے جانے کی تاریخ اور قریب کر دی۔ گویا کمپنی نے صاف پیغام دے دیا کہ ’اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔‘
معاملہ عدالت میں پہنچا، جج نے کہا کہ واکر کی تشویش جائز تھی:
’ان کی ذمہ داریاں بانٹ دی گئیں۔ انہیں ”منیجر کے ڈیسک“ سے ہٹا دیا گیا۔ اور ان کے ساتھ مؤثر طریقے سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ یہ سب ملا کر واضح پیغام دیتا تھا کہ ان کی حیثیت گھٹا دی گئی ہے۔ اور یہ ایک طرح کی واضح demotion تھی، جو ملازم اور کمپنی کے درمیان اعتماد کو توڑنے کے مترادف ہے۔‘
جج رینڈورف نے اپنے فیصلے میں کہا:
’واکـر کے نقطہ نظر سے یہ بالکل منطقی تھا کہ بیک ڈیسک پر ان کے جونیئر کا بیٹھنا اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اب برانچ مینیجر نہیں بلکہ اسسٹنٹ مینیجر ہیں۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ یا تو انہیں اسسٹنٹ مینیجر بنایا گیا یا مشترکہ مینیجر، جو ان کے سابقہ کردار سے کم درجے کا عہدہ تھا۔ اس بنیاد پر کمپنی کو ان کی برطرفی ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے 21,411 پاؤنڈ (تقریبا 82 لاکھ روپے) ہرجانے کا حکم دیا گیا۔
اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ کام کی جگہ پر صرف مالی مفاد ہی نہیں بلکہ وقار اور عزتِ نفس کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔