زمین کے گرد گردش کرنے والے ایک نئے چاند (Quasi-Moon) کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، جسے سائنس دانوں نے 2025 PN7 کا نام دیا ہے۔ حیران کن طور پر یہ چھوٹا سیارچہ گزشتہ 60 سالوں سے زمین کے قریب مدار میں گردش کر رہا تھا، مگر اس کی کم روشنی اور ناقص مشاہداتی زاویوں کے باعث یہ طویل عرصے تک سائنس دانوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔
یہ انکشاف اسپین کی کمپلوتینسے یونیورسٹی آف میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ فلکیات کارلوس ڈی لا فوئنٹے مارکوس کی سربراہی میں ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا ہے، جسے 2 ستمبر 2025 کو ریسرچ نوٹس آف دی امریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی (AAS) میں شائع کیا گیا ہے۔
قریبی چاند وہ فلکی اجسام ہوتے ہیں جو زمین کے گرد براہِ راست گردش نہیں کرتے، بلکہ وہ سورج کے گرد ایسا مدار اختیار کرتے ہیں جو زمین کے مدار سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس ہم آہنگی کی وجہ سے وہ ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے زمین کے ساتھ ساتھ حرکت کر رہے ہوں، مگر درحقیقت وہ زمین کے مستقل قدرتی چاند نہیں کہلاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق مذکورہ نیا چاند زمین کے سات معلوم قریبی چاندوں میں سے سب سے چھوٹا اور سب سے غیر مستحکم ہے۔ اس کا قطر تقریباً 62 فٹ (19 میٹر) ہے، جو اسے فلکیاتی لحاظ سے ایک نہایت مختصر جسم بناتا ہے۔ اگرچہ یہ سیارچہ روشنی میں انتہائی مدھم ہے، لیکن اعلیٰ معیار کی دوربین کے ذریعے اسے دیکھنا ممکن ہے۔
یہ چاند سورج کے گرد زمین جیسا ہی مدار اختیار کرتا ہے، اور زمین سے اس کا فاصلہ 28 لاکھ میل سے لے کر 3.7 کروڑ میل تک رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ سیارچہ آئندہ 60 سالوں تک زمین کے ساتھ اپنی ہم آہنگ حرکت برقرار رکھے گا، جس کے بعد ممکن ہے کہ کششِ ثقل کے باعث اس کا مدار تبدیل ہو جائے۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ کارلوس ڈی لا فوئنٹے مارکوس نے بتایا ہے کہ، ”یہ سیارچہ چھوٹا، کمزور اور زمین سے مشاہدے کے لیے غیر موزوں زاویے پر موجود ہے، اس لیے یہ تعجب کی بات نہیں کہ یہ اتنے برسوں تک ہماری نظروں سے پوشیدہ رہا۔“
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قریبی چاند کا ذکر سب سے پہلے فرانسیسی صحافی ایڈرین کوفینیٹ نے کیا تھا، جنہوں نے 30 اگست 2025 کو مائنر پلینٹ میلنگ لسٹ (Minor Planet Mailing List) پر اس کی مدار کی تفصیلات شائع کی تھیں۔ ان کے مطابق، ”پی این سیون 2025 بظاہر آئندہ 60 سالوں تک زمین کا کوآزی سیٹلائٹ رہے گا۔“
یہ دریافت نہ صرف فلکیاتی تحقیق میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہماری زمین کے گرد اب بھی ایسے کئی اجرامِ فلکی موجود ہو سکتے ہیں جو جدید ترین آلات کے باوجود ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔