وہ کبھی ایک عام فلائٹ اٹینڈنٹ ہوا کرتی تھی، جس نے کورونا وبا کے دوران نوکری کھو دی، لیکن قسمت نے پلٹ کر ایسا موقع دیا کہ ایک ہی دن میں اس نے اپنی پچھلی نوکری کی دو سالہ تنخواہ کے برابر کمائی کر ڈالی۔ وہ ایک پراپرٹی لانچ ایونٹ میں تین خریدار لائی، اور ہر ایک نے دو دو فلیٹ خرید لیے۔ شام ڈھلتے ہی وہ لاکھوں کا کمیشن کما چکی تھی۔
یہ کہانی ہے تامارا کارٹن کی، جن کی قسمت ابو ظہبی میں ایک رات میں ہی پلٹ گئی۔
تامارا نے خلیج ٹائمز سے گفتگو میں ہنستے ہوئے بتایا، ’میں ایک میز سے دوسری میز کی طرف بھاگ رہی تھی، جیسے شہد کی مکھی ایک پھول سے دوسرے پر جاتی ہے۔ میرے دل میں خوشی تھی، اور میرا پرس پیسوں سے بھرا ہوا تھا’۔
اب تامارا کرومپٹن پارٹنرز کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور مانتی ہیں کہ ریئل اسٹیٹ صرف لین دین کا کھیل نہیں، بلکہ بھروسے اور رشتے بنانے کی جنگ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’یہاں کوئی تنخواہ نہیں ملتی، صرف کمیشن ہے۔ کبھی گھنٹوں محنت کرو اور کلائنٹ کسی دوسرے ایجنٹ کے ساتھ سودا کر جائے۔‘
متحدہ عرب امارات میں ریئل اسٹیٹ کو ہمیشہ سے ’’سونے کی کان‘‘ کہا جاتا ہے۔ دبئی اور ابوظہبی کے پراپرٹی لانچز، گولڈن ویزا اسکیمیں اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مواقع نے مارکیٹ کو دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش انڈسٹری میں بدل دیا ہے۔ لیکن خطرہ یہ ہے کہ آمدنی کبھی آسمان چھو لیتی ہے اور کبھی جیب بالکل خالی رہتی ہے۔
دبئی کی ایک اور بروکر عائشہ کہتی ہیں، ’کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سودا آدھے سال کی تنخواہ کے برابر کما دیتا ہے، اور کبھی پورا مہینہ خالی ہاتھ گزر جاتا ہے۔‘
اعدادوشمار بھی ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ مشہور میٹروپولیٹن گروپ کے مطابق صرف ان کی کمپنی کے 177 ایجنٹس کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ ان میں سے 40 نے دس ملین درہم سے زیادہ کمیشن کمایا، اور کچھ نے تو 37 ملین درہم کا سنگ میل بھی عبور کیا۔ ایک ایجنٹ نے محض دو ہفتوں میں 60 ملین درہم کی پراپرٹی بیچ کر سب کو حیران کر دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کامیابی کا راز ہے محنت، تعلقات اور موقع کو پہچاننے کی صلاحیت۔ اور یہی وجہ ہے کہ ریئل اسٹیٹ اب صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ لوگوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا سب سے تیز راستہ بن گیا ہے۔