دنیا بھر میں تعلیم ایک بڑے انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہاورڈ گارڈنر جیسے ماہرین پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ 2050 تک روایتی کلاس رومز اور یکساں امتحانات پر مبنی نظام قصۂ پارینہ بن جائے گا۔
ہارورڈ گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن میں ایک پینل ڈسکشن کے دوران مشہور ماہرِ نفسیات ہاورڈ گارڈنر اور ہاورڈ لا اسکول کی وزٹنگ پروفیسر انتھیا رابرٹس نے تعلیم پر مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کے اثرات پر گفتگو کی۔
گارڈنر نے کہا کہ 2050 تک تعلیم بالکل بدل جائے گی اور روایتی نظام جیسے سب بچوں کو ایک ہی طرح پڑھانا اور پرکھنا، پرانا لگے گا۔
آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ کے بچے کا کلاس روم 2050 تک موجود ہوگا؟ یہ بلکل بھی ویسا نہیں ہوگا جیسا ہم جانتے ہیں۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور تعلیم کا پرانا ڈھانچہ اب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ ہارورڈ کے ماہرین کے مطابق مستقبل میں ایک ہی نصاب، ایک ہی رفتار اور سب پر یکساں امتحان مسلط کرنے کا دور ختم ہوجائے گا۔ تعلیم کا مقصد رٹّا لگوانا نہیں بلکہ تخلیق اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کے اسکول صرف ابتدائی سالوں میں بچوں کو بنیادی مہارتیں… پڑھنا، لکھنا، حساب، اور شاید کوڈنگ سکھائیں گے۔ اس کے بعد طالب علم اپنے پروجیکٹس، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی مدد سے خود اپنی سمت کا تعین کریں گے۔ یعنی کلاس روم کی دیواریں سکڑ جائیں گی اور سیکھنے کے دروازے لامحدود ہوجائیں گے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
پاکستانی تعلیمی نظام پہلے ہی دو مختلف دنیاؤں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف بڑے شہروں کے طلبہ آن لائن پلیٹ فارمز سے دنیا کی زبانیں اور جدید ٹیکنالوجی سیکھ رہے ہیں، تو دوسری طرف دیہی علاقوں میں بچے آج بھی ٹوٹی ہوئی تختی یا سلیٹ پر جمع تفریق کر رہے ہیں۔ یہی خلیج سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر اسے ختم نہ کیا گیا تو مستقبل کی دنیا میں صرف چند بچے آگے بڑھ سکیں گے، باقی پیچھے رہ جائیں گے۔
ماضی کے نقوش: نوآبادیاتی ورثہ اور کمزور پرانا ڈھانچہ
ہمارا تعلیمی ڈھانچہ انگریز دور کے سانچے میں بنا جس میں صرف امتحان، نمبرز اور ڈگری ہی سب کچھ ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اسکول تخلیق کار یا سوچنے والے ذہن نہیں بلکہ نوکری کے امیدوار پیدا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا مشینوں کو عام کام سونپ رہی ہے تو کیا ہم اپنے بچوں کو صرف رٹّا یاد کروا کر مستقبل کے لیے تیار کر سکتے ہیں؟
پاکستانی طلبہ کو بھی جدید مہارتیں سیکھنی ہوں گی، ورنہ وہ عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ لیکن پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟
اساتذہ کی تربیت
ہمیں ایسے استاد چاہئیں جو صرف لیکچر دینے والے نہ ہوں بلکہ طلبہ کے رہنما، اخلاقی راہبر اور جستجو جگانے والے ہوں۔ اس کے لیے جدید تربیت اور معلم کی عزت دونوں ضروری ہیں۔
امتحانی نظام کی تبدیلی
ایک جیسے بورڈ امتحانات کے بجائے ایسا نظام لانا ہوگا جو بچوں کی اصل قابلیت، سوچنے کی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کی مہارت کو پرکھے۔
ڈیجیٹل خلیج کا خاتمہ
جب تک ہر بچے کے پاس انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی سہولت نہیں ہوگی، کوئی بھی تعلیمی انقلاب ادھورا رہے گا۔ اس کے لیے کمیونٹی لرننگ سینٹرز اور آف لائن ٹیکنالوجی ناگزیر ہیں۔
بین المضامینی تعلیم
مستقبل کا طالب علم ایک ساتھ تاریخ اور کمپیوٹر، ادب اور کلائمیٹ سائنس، یا اسلامی فلسفہ اور روبوٹکس پڑھ سکے گا۔ یہ لچک ہی اصل طاقت ہوگی۔
مقامی اقدار کا فروغ
ہمیں مغرب کی اندھی تقلید نہیں کرنی بلکہ اپنی لسانی، ثقافتی اور فکری دولت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے مزید مضبوط بنانا ہے۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ چاہے ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی تعلیم کو بدل دیں گی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس تبدیلی کی قیادت کرے گا یا اس کے نیچے دب جائے گا؟
آگے بڑھنے یا پیچھے رہنے کا سوال…!
2050 میں تعلیم دنیا بھر میں یکسر بدل چکی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان خود اس تبدیلی کا حصہ بنے گا یا پرانے ڈھانچوں کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم بغیر وقت ضائع کیے اپنے اساتذہ کو تیار کریں، ڈیجیٹل خلا کم کریں، اور نصاب کو تخلیقی و اخلاقی بنیادوں پر ڈھالیں تو پاکستان کے بچے صرف اے آئی کے صارف نہیں بلکہ اس کے تخلیق کار بن سکیں گے۔