چین کا نیا کمال: دنیا کا سب سے اونچا ’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج‘ تیار، امریکی بھی دنگ رہ گئے
چین نے ایک اور انجینئرنگ کا شاہکار پیش کرتے ہوئے دنیا کا سب سے اونچا پل ’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج‘ عوام کے لیے کھول دیا۔
یہ پل چین کے صوبے گویژو میں واقع ہے اور سی جی ٹی این اور بی بی سی کی رپورٹوں کے مطابق، تقریباً 2050 فٹ (625 میٹر) اونچا ہے جو نیچے بہنے والے دریا کے اوپر حیرت انگیز طور پر معلق ہے۔
ہمارے نظام شمسی میں ایک نئے سیارے کی موجودگی کا انکشاف
بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس پل کی تعمیر سے دو پہاڑی علاقوں کے درمیان سفر کا وقت دو گھنٹے سے گھٹ کر صرف دو منٹ رہ گیا ہے۔
پل اپنی دلکش ساخت، شیشے کے اسکائی واک، بلند ریستوران اور بنجی جمپنگ جیسی تفریحات کے باعث دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
چینی حکام کے مطابق، یہ منصوبہ چار سال سے بھی کم عرصے میں مکمل کیا گیا۔ پل کی تعمیر نہ صرف تکنیکی مہارت کا مظہر ہے بلکہ یہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر بھی تیار کیا گیا ہے۔ پل کی لمبائی 4600 فٹ ہے، جو امریکہ کے مشہور ’رائل گورج برج ’سے دوگنی بلندی رکھتا ہے۔
چھوٹے قد کے یوٹیوبر کا اڑتے جہاز پر اسٹنٹ، عالمی ریکارڈ قائم
چین کی صوبائی ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ژانگ یِن کے مطابق، اس پل کے افتتاح سے علاقے کی سفری سہولتوں میں زبردست بہتری آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج کے افتتاح سے دونوں اطراف کے درمیان سفر دو گھنٹے سے کم ہو کر صرف دو منٹ رہ گیا ہے۔ یہ علاقائی ٹرانسپورٹ کے نظام میں انقلاب لائے گا اور معیشت کو نئی توانائی دے گا۔‘
امریکی میڈیا ادارے این بی سی نیوز کے مطابق، یہ پل امریکہ کے بلند ترین برج سے تقریباً 1100 فٹ اونچا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پل چین کے انجینئرنگ معیار اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کی علامت ہے۔
پل کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر وائرل ہو گئی ہے۔ صارفین اس جدید تعمیر کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور چین کی رفتار اور مہارت کی تعریف کرتے نظر آئے۔
سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ سب سے زیادہ وائرل ہوا،”یہ صرف ایک پل نہیں، بلکہ ایک بیانیہ ہے کہ مستقبل کی راہیں اب مغرب سے نہیں ایشیا سے نکلتی ہیں۔“
ایک صارف نے لکھا، ”چین نے دنیا کا بلند ترین پل صرف چار سال میں بنا لیا، جبکہ نیویارک کو ایک سب وے لائن کھولنے میں 65 سال لگے!“
ایک اور صارف نے طنزاً کہا، ”ہمیں یہ پل سان ڈیاگو میں چاہیے، امریکیوں کو واقعی ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔“
اسی طرح برطانیہ کے ایک صارف نے مزاحیہ تبصرہ کیا، ”یہ پراجیکٹ اگر ہمارے ہاں ہوتا تو پچاس سال میں بھی مکمل نہ ہوتا، بلکہ آخر میں منسوخ ہو جاتا۔“
جہاں دنیا بھر کے ماہرین اس کی تعمیر پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ ’امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو چین کی ترقی کی رفتار کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔‘