ہمارے نظامِ شمسی میں زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اسی طرح دوسرے نظاموں میں بھی زیادہ تر سیارے اپنے کسی ستارے کے مدار میں رہتے ہیں۔ لیکن خلا میں کچھ ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو کسی ستارے کے بغیر تنہا بھٹکتے ہیں، انہیں آوارہ سیارے کہا جاتا ہے۔
ان کے وجود اور پیدائش کا راز اب تک سائنس دانوں کے لیے ایک پہیلی ہے، مگر حال ہی میں ماہرینِ فلکیات نے ایک نومولود آوارہ سیارہ دریافت کیا ہے جو اپنے ابتدائی دور میں ہی حیرت انگیز رفتار سے گرد وغبار اور گیس کو کھا رہا ہے۔
چین کا نیا کمال: دنیا کا سب سے اونچا ’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج‘ تیار، امریکی بھی دنگ رہ گئے
یہ دریافت ان پراسرار، تنہا دنیاؤں کے بارے میں نئی جھلک اور گہری سمجھ فراہم کر رہی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ سیارہ، جسے سی ایچ اے1107-7626 کہا جاتا ہے، کہکشاں ملکی وے میں 620 نوری سال دور، جنوبی برج کیمیلیئن میں واقع ہے۔ اس کا وزن مشتری سے پانچ سے دس گنا زیادہ ہے اور چونکہ یہ ابھی بھی اپنے گرد موجود گیس و گرد کے بادل سے مادہ کھینچ رہا ہے اس لیے یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ماہرین نے اس سیارے پر کئی ماہ تک نظر رکھی اور پایا کہ یہ اپنے گرد موجود مادے کو کھینچنے کی رفتار بدلتا رہتا ہے۔
دنیا کے خاتمے کے لیے شہابِ ثاقب زمین کی طرف گامزن، انٹرنیٹ پر وائرل خبروں کی حقیقت کیا ہے؟
مئی سے اگست 2025 کے دوران اس کی رفتار آٹھ گنا بڑھ گئی اور اگست میں یہ فی سیکنڈ تقریباً چھ ارب ٹن مادہ نگل رہا تھا۔
مطالعہ کے سربراہ، اٹلی کے این اے ایف فلکیاتی رصدگاہِ پالرمو (آئی این اے ایف) کے سائنسدان وِکٹور آلمینڈروسن-اباد کا کہنا ہے کہ، ’یہ اب تک کسی سیاروی جسامت والے جسم میں دیکھا گیا سب سے طاقتور اضافہ ہے۔‘
تحقیق کے مطابق سی ایچ اے1107-7626 کی عمر تقریباً 10 سے 20 لاکھ سال ہے جو کہ فلکیاتی لحاظ سے نہایت کم ہے۔ یہ دریافت صرف رفتار یا وزن کی وجہ سے دلچسپ نہیں، بلکہ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ سی ایچ اے1107-7626 میں ستاروں جیسے عمل ہو رہے ہیں۔
ماہرین نے دیکھا کہ اس کی ڈِسک میں کیمیائی تبدیلیاں ہوئیں جہاں پانی اور ہائیڈروکاربن کے نئے اجزاء پیدا ہوئے۔ یہ مظاہر عام طور پر صرف نوخیز ستاروں میں دیکھے جاتے ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف سینٹ اینڈروز سے وابستہ ماہر بلِنڈا ڈیمین کے مطابق، ’یہ دریافت سیاروں اور ستاروں کے درمیان لکیر کو دھندلا کر دیتی ہے اور ہمیں آوارہ سیاروں کے ابتدائی دور کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔‘
یورپی جنوبی رصدگاہ (ای ایس او) کی ماہر امیلیا بایو نے کہا، ’یہ تصور ہی حیران کن ہے کہ ایک سیاروی جسم ستارے جیسا برتاؤ کر سکتا ہے۔ یہ دریافت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی سے باہر دنیا کتنی حیرت انگیز ہو سکتی ہے۔‘
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کے گرد ایک گیس اور گرد و غبار کی ڈسک ہے اور اس کا مضبوط مقناطیسی میدان مادے کو اپنے مرکز کی طرف کھینچتا ہے، بالکل ویسے جیسے ستارے کرتے ہیں۔
یہ مشاہدہ ای ایس او کے ویری لارج ٹیلی اسکوپ (وی ایل ٹی) کی مدد سے کیا گیا، جو چلی میں واقع ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسے آزاد یا ”روگ“ سیارے جو کسی ستارے کے گرد نہیں گھومتے اب بھی ایک معمہ ہیں۔ کچھ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ وہ ستاروں کی طرح بننے والے بادلوں سے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ کچھ کے خیال میں وہ کسی نظام سے باہر نکالے گئے عام سیارے ہوتے ہیں۔
اگرچہ چا 1107-7626 ایک گیس جائنٹ ہے، لیکن یہ کبھی بھی اتنا بھاری نہیں ہو سکے گا کہ ستارے کی طرح اپنے اندر ہائیڈروجن فیوژن شروع کر سکے۔
بلِنڈا ڈیمین کہتی ہیں ، ’یہ دریافت بہت دلچسپ ہے کیونکہ ہم عام طور پر سیاروں کو پرسکون اور مستحکم سمجھتے ہیں، مگر یہ واضح کرتا ہے کہ نومولود سیارے بھی بالکل ستاروں کی طرح سرگرم ہو سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرق بعض اوقات دھندلا ہو جاتا ہے۔‘