بھارتی ریاست کرناٹک کی حکومت نے پرائیویٹ اور سرکاری سیکٹر پر خواتین کے لیے ماہواری کی رخصت کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا ہے، جس کے تحت خواتین کو ہر ماہ ایک دن کی چھٹی مل سکے گی۔ اس اقدام کو صنفی حساسیت کے حامل کام کے ماحول کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹس کے مطابق متعدد پیشہ ور افراد سے بات کرنے پر ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر مرد اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بنیادی ہمدردی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

افریقی بادشاہ کی 15 بیویوں اور 100 خادموں کے ساتھ یو اے ای آمد، دیکھنے والے حیران

گروگرام کے 25 سالہ کمیونیکیشن پروفیشنل ہارپراتیک کہتے ہیں، ’سچ کہوں تو یہ پالیسی بہت پہلے نافذ ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال فیصلہ دیر سے تو آیا، مگر خوش آئند ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت خواتین کے مسائل کو تسلیم کرتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ حقیقی مسئلہ ہے۔‘

کچھ مردوں کویہ فیصلہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے، لیکن کچھ اب بھی اس موضوع پر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

ایک شخص نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کرتے ہوئے رائے دی کہ ’یہ بالکل درست ہے، بہتر ہے کہ خواتین درد کے باوجود خود کو ’ٹھیک‘ ظاہر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ بس دفتری چڑچڑاپن گھر نہ لے جائیں۔‘

خاتون کے جاپان کی پہلی وزیراعظم بننے پر خواتین ہی ناخوش، وجہ کیا ہے؟

رپورٹس کے مطابق زیادہ تر مردوں سے براہِ راست گفتگو کے دوران مجموعی طور پر ردعمل مثبت نظر آیا، لیکن جب آن لائن آراء دیکھی گئیں تو صورتحال یکسر مختلف تھی۔

کچھ مردوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے خواتین کو “کم پیداواری” اور کمپنی کے لیے بوجھ قرار دیا۔ کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ خواتین کو رخصت دینے کی بجائے روایتی کرداروں میں محدود رکھا جائے۔

خواتین کے درمیان بھی مخلوط جذبات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر خواتین نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا، لیکن کئی نے خدشات کا اظہار بھی کیا۔

کچھ کو ڈر ہے کہ اگر وہ یہ رخصت لیں گی تو انہیں کمزور یا غیر پیشہ ور سمجھا جائے گا۔ دیگر خواتین کو رازداری کی فکر ہے۔ بعض کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ کمپنیاں ایسی خواتین کو ملازمت دینے میں ہچکچائیں گی جنہیں ہر سال 12 دن کی اضافی چھٹی ملے گی۔

ہیومن ریسورس کنسلٹنٹ سوریا شیکھر دیب ناتھ کا کہنا ہے کہ ماہواری کی رخصت کوئی خاص رعایت نہیں بلکہ صحت کی ضرورت ہے، جیسے ذہنی صحت یا والدین کی ذمہ داریوں کے لیے چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق کئی نجی کمپنیاں پہلے ہی ایسی سہولت دے رہی ہیں اور اس سے کام پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔

AAJ News Whatsapp

وہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ سماجی سوچ کا ہے، نہ کہ انتظامی۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سب صرف کاغذی پالیسیوں سے نہیں، بلکہ تعلیم، آگاہی اور تعاون سے ممکن ہے۔

کرناٹک اس حوالے سے پہلا بھارتی ریاست نہیں ہے۔ بہار، اوڈیشہ اور کیرالہ پہلے ہی ایسی پالیسی اپنا چکے ہیں۔ تاہم، کرناٹک کی خاص بات اس کی وسعت ہے۔

یہ ریاست سرکاری و نجی دونوں شعبوں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر گارمنٹ فیکٹریوں تک تمام خواتین کو سالانہ 12 دن کی ادا شدہ ماہواری کی چھٹی فراہم کر رہی ہے۔ یہ اقدام ماہواری کی صحت کو معمول کا حصہ بنانے اور صنفی حساس معاملات پر مشتمل دفاتر تشکیل دینے کی جانب ایک مضبوط قدم سمجھا جا رہا ہے۔

More

Comments
1000 characters