دل کی بیماریوں کے بارے میں آگاہی اور علاج میں بے پناہ ترقی کے باوجود، عام لوگوں میں کئی ایسی غلط فہمیاں اب بھی موجود ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
اکثر افراد کا ماننا ہے کہ اگر وہ متحرک زندگی گزار رہے ہیں یا چند معروف سپلیمنٹس لے رہے ہیں، تو وہ دل کے امراض سے محفوظ ہیں۔ تاہم، تجربہ کار ماہرین اس تاثر کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔
اسی سلسلے میں، معروف امریکی ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر ایون لیوین نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا پیغام میں بتایا کہ دل کی صحت کے بارے میں چند عام عقائد دراصل سائنسی طور پر درست نہیں۔ 30 سالہ تجربے کے حامل ڈاکڑ لیوین نے عوام کو خبردار کیا کہ دل کی حفاظت صرف دواؤں یا سپلیمنٹس سے ممکن نہیں، بلکہ درست معلومات اور متوازن طرزِ زندگی ہی اصل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
1. روزانہ اسپرین لینا ہمیشہ فائدہ مند نہیں
ڈاکٹر لیوین کے مطابق، ’جو افراد پہلے سے دل کے مریض نہیں ہیں، ان کے لیے روزانہ اسپرین لینا ضروری نہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر 70 سال سے زائد عمر کے افراد میں یہ عادت خون بہنے کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔ ان کے مطابق، یہ پرانا مشورہ اب سائنسی بنیادوں پر مؤثر نہیں رہا۔
2. وٹامن ڈی سپلیمنٹس دل کو محفوظ نہیں بناتے
ڈاکٹر لیوین نے وضاحت کی کہ اگرچہ وٹامن ڈی کی کمی اور دل کی بیماری کے درمیان تعلق پایا گیا ہے، مگر وٹامن ڈی سپلیمنٹ لینے سے دل کے حملے کے امکانات کم نہیں ہوتے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ سپلیمنٹس پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے، متوازن غذا اور سورج کی مناسب روشنی پر توجہ دینی چاہیے۔
ساتھ ہی انہوں نے میٹھے، نرم، چبانے والے جیلی نما ٹکڑوں کی شکل میں تیار کیےگمی سپلیمنٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تنقید کی، جن میں اکثر زیادہ شکر یا ایریتھریٹول (Erythritol) جیسے مصنوعی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ایک کلیولینڈ کلینک کی تحقیق کے مطابق، یہ اجزاء فالج اور دل کے دورے کے خطرے میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
3. بلڈ پریشر 130 ہونا محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے
ڈاکٹر لیوین نے بتایا کہ ماضی میں 130 بلڈ پریشر کو نارمل سمجھا جاتا تھا، مگر جدید تحقیقات، بشمول سِسٹالِک بلڈ پریشر اِنٹروینشن ٹرائل (SPRINT) اسٹڈی، اس خیال کی تردید کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، زیادہ تر صحت مند بالغوں کے لیے بلڈ پریشر کا مثالی ہدف 120 کے قریب ہونا چاہیے۔
4. کو اینزائم Q10 سپلیمنٹس کے دعوے گمراہ کن
مارکیٹ میں کو اینزائم Q10 یا CoQ10 سپلیمنٹس کو دل کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر لیوین کے مطابق، ’یہ دعوے سائنسی طور پر درست نہیں۔‘ اگرچہ بعض افراد کو لگتا ہے کہ یہ اسٹاٹِن دواؤں کے اثرات کم کرتے ہیں، مگر ان کے مطابق، یہ محض ’پلیسبو ایفیکٹ‘ ہوسکتا ہے، یعنی ذہنی اطمینان، حقیقی فائدہ نہیں۔
5. بلند LDL کولیسٹرول ہمیشہ غذا کی وجہ سے نہیں ہوتا
ڈاکٹر لیوین نے وضاحت کی کہ بعض افراد میں زیادہ ایل ڈی ایل (لو ڈینسٹی لائپو پروٹین)کولیسٹرول دراصل جینیاتی وجوہات سے ہوتا ہے، نہ کہ صرف ناقص خوراک سے۔ ان کے مطابق، ایسے مریضوں کو عموماً مؤثر کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں تاکہ دل کے خطرات کم کیے جا سکیں۔
ایل ڈی ایل کولیسٹرول خون کے ذریعے شریانوں میں جمع ہونا شروع کر دیتا ہے اور وقت کے ساتھ یہ جمی ہوئی چکنائی پلاگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو، خون کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتی ہے، شریانوں کو تنگ کرتی ہے، اور آخرکار ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی لیے اسے ’خراب کولیسٹرول‘ کہا جاتا ہے۔
جبکہ ہائی ڈینسٹی لائپو پروٹین (HDL) اچھا کولیسٹرول کہلاتا ہے، کیونکہ یہ شریانوں سے اضافی کولیسٹرول کو صاف کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ایل ڈی ایل کولیسٹرول بڑھنے کی وجوہات میں، چکنائی اور تلی ہوئی غذائیں، سرخ گوشت اور پراسیسڈ گوشت، ورزش کی کمی، موٹاپا، وراثتی وجوہات، تمباکو نوشی اور الکحل ک استعمال ہوسکتی ہیں۔
اپنے پیغام کے آخر میں ڈاکٹر لیوین نے کہا کہ ’صحت مند دل صرف سپلیمنٹس یا کسی ایک عادت سے محفوظ نہیں ہوتا۔ دل کی حفاظت کے لیے تحقیق پر مبنی فیصلے، متوازن غذا، جسمانی سرگرمی، اور وقتاً فوقتاً طبی معائنہ ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عوام سوشل میڈیا کے مشوروں کے بجائے مستند ہیلتھ اسپیشلسٹ کی رائے پر عمل کریں، کیونکہ درست معلومات ہی بہترین بچاؤ ہے۔