معروف بھارتی شاعر، نغمہ نگار اور سماجی مبصر جاوید اختر نے افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ بھارت اور ان کے ’پرتپاک استقبال‘ پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جاوید اختر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ وہ اس واقعے پر شرمندگی اور افسوس محسوس کرتے ہیں۔

جاوید اختر نے اپنی پوسٹ میں کہا، ’میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے بدترین دہشت گرد گروہ طالبان کے نمائندے کو وہی لوگ عزت و احترام دے رہے ہیں جو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف خطبے دیتے ہیں۔‘

انہوں نے دارالعلوم دیوبند پر بھی سخت تنقید کی، جہاں امیر خان متقی کو احترام بھرے انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ جاوید اختر نے کہا، ’دیوبند پر بھی افسوس ہے کہ انہوں نے اس شخص کو ”اسلامی ہیرو“ کے طور پر سراہا جو لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ میرے ہندوستانی بھائیو اور بہنو! ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟‘

واضح رہے کہ یہ بھارت میں طالبان کے کسی اعلیٰ رہنما کا 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد پہلا سرکاری دورہ تھا۔ امیر خان متقی چھ روزہ قیام پر نئی دہلی پہنچے۔ ان کے سفر کی اجازت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طالبان پابندی کمیٹی نے خصوصی استثنا دے کر دی تھی۔

اقوام متحدہ نے متقی کا نام 25 جنوری 2001 کو اپنی پابندی فہرست میں شامل کیا تھا، جس کے تحت ان پر سفری پابندی، اثاثوں کی ضبطی اور اسلحہ خریدنے پر پابندی عائد ہے۔

AAJ News Whatsapp

گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی غیر موجودگی پر شدید تنازع بھی کھڑا ہوا تھا۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اسے ناقابلِ قبول اور خواتین کی توہین قرار دیا، جب کہ متعدد صحافتی تنظیموں نے بھی افغان وزیرِ خارجہ پر تنقید کی۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے وضاحت کی کہ اس پریس کانفرنس کا اہتمام ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، تنازع کے بڑھنے پر امیر خان متقی نے اتوار کو ایک اور پریس کانفرنس منعقد کی، جس میں خواتین صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’خواتین صحافیوں کو باہر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، یہ محض تکنیکی مسئلہ تھا۔ فہرست مختصر وقت میں تیار کی گئی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ، ’کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔‘

More

Comments
1000 characters