ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہا تو اس صدی کے آخر تک دنیا کو سال میں تقریباً 2 ماہ اضافی ’سپر ہاٹ‘ (گرم ترین) دنوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

امریکی موسمیاتی ادارے کلائمیٹ سینٹرل اور ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر 2015 میں پیرس ماحولیاتی معاہدہ نہ کیا جاتا تو دنیا کا درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا خطرہ تھا۔ جس کے نتیجے میں میں دنیا کو ہر سال 114 گرم ترین دن کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2015 سے اب تک سالانہ 11 اضافی ’سپر ہاٹ‘ دنوں کا اضافہ ہوچکا ہے، اور دنیا اب تقریباً 2.6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی طرف جا رہی ہے، جس کے باعث سالانہ 57 گرم ترین کا اضافہ متوقع ہے۔

سپر ہاٹ دن کیا ہوتا ہے؟

’سپر ہاٹ‘ اُن دنوں کو کہا جاتا ہے جن کا درجہ حرارت 1991 سے 2020 کے درمیان آنے والے گرم ترین دنوں سے 90 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دن عام طور پر گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈز سے کہیں زیادہ شدید ہوں گے، جو نہ صرف انسانی صحت، بلکہ معیشت، زراعت اور قدرتی ماحول پر بھی انتہائی تباہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔

AAJ News Whatsapp

کون سے ممالک متاثر ہوں گے؟

رپورٹ کا ایک تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والی 10 اقوام وہ چھوٹی، سمندر پر انحصار کرنے والی ریاستیں ہیں جو مجموعی طور پر صرف 1 فیصد عالمی گرین ہاؤس گیسز خارج کرتی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں سب سے زیادہ خطرناک درجہ حرارت کا سامنا ہوگا۔

ان ممالک میں پاناما، ساموا اور سولومن آئی لینڈز جیسی ریاستیں شامل ہیں، جو سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ پانامہ کو 149 اضافی گرم ترین دنوں کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔

اس کے برعکس امریکا، چین اور بھارت جو دنیا کے سب سے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک میں شامل ہیں اور 42 فیصد کاربن گیسیں خارج کرتے ہیں، انہیں صرف 23 سے 30 اضافی سپر گرم دنوں کا سامنا ہوگا اور ان ممالک کو 23 سے 30 اضافی گرم دن کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تحقیق کی شریک مصنفہ، ڈاکٹر فریڈریکے اوٹو نے اس صورتحال کو ’ماحولیاتی ناانصافی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے کہ وہ ممالک جو موسمیاتی بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں، ان پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔“

ان کا کہنا تھا کہ ہر سال گرمی کی شدت سے ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اگر عالمی برادری نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو یہ تعداد لاکھوں تک جا سکتی ہے۔

More

Comments
1000 characters