بی بی سی کی ایک سائنس فکشن سیریز ”آؤٹ آف دی اَن نون“ (Out of the Unknown)، 1965 سے 1971 کے درمیان نشر ہوئی تھی۔ جس میں کئی ایسے تصورات پیش کیے گئے تھے جو آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
اگر کوئی آپ سے کہے کہ ساٹھ برس پہلے ایک ٹی وی سیریز میں آج کی دنیا، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز اور ان کے ممکنہ اثرات کی پیش گوئی کر دی گئی تھی، تو شاید آپ یقین نہ کریں۔ مگر بی بی سی کی سائنس فکشن سیریز (Out of the Unknown) نے بالکل یہی کیا۔ جو اس دور میں فکشن ہی تھا مگر آج حقیقت بن چکا ہے۔
اس سیریز کا بنیادی مقصد سائنس فکشن کو ایک سنجیدہ ڈرامے کے طور پر پیش کرنا تھا۔ آئیزک ایسی موف (Isaac Asimov) اور ایم فورسٹر (E. M. Forster) جیسے مشہور سائنس فکشن مصنفین کی کہانیوں پر مبنی یہ ڈرامے اُس دور میں بنائے گئے جب کمپیوٹر بھی عام لوگوں کی زندگی کا حصہ نہیں تھے۔
وہ تصورات جو آج حقیقت بن چکے ہیں
بی بی سی کی یہ سیریز 4 سیزن اور 49 اقساط پر مشتمل ہے تھی، جو 1965 سے 1971 کے دوران نشر ہوئی تھی۔ تاہم بی بی سی کی ریکارڈنگز کو مٹانے کی پالیسی کی وجہ سے اس سریز کی بیشتر اقساط بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ صرف 20 اقساط مکمل طور پر محفوظ ہیں، جبکہ کچھ دیگر قسطوں کے ٹکڑے یا آڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔
سوشل میڈیا اور سماجی تنہائی
سیریز کی سب سے مشہور قسط ”The Machine Stops“ میں ایک ایسی دنیا دکھائی گئی تھی جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملنا ملانا چھوڑ چکے ہیں۔ ہر انسان اپنے کمرے میں بند ہے اور ایک بڑی مشین کے ذریعے دوسروں سے رابطہ رکھتا ہے۔
اس قسط میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر انسان مشینوں پر مکمل انحصار کرنے لگے تو کیا ہم سچ مچ جینے کے قابل رہیں گے؟ آج، جب لوگ سوشل میڈیا پر ہزاروں “دوست” رکھتے ہیں مگر حقیقی دنیا میں تنہائی محسوس کرتے ہیں، تو اس کہانی کی پیش گوئی درست معلوم ہوتی ہے۔
ڈیٹا، پرائیویسی اور نگرانی کا نظام
اس سیریز کی کئی قسطوں میں ایک ایسی دنیا دکھائی گئی جہاں معلومات (data) کو طاقت کے طور پر دکھایا گیا۔ اس زمانے میں ڈیجیٹل ڈیٹا کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن سیریز میں یہ دکھا دیا گیا تھا کہ جب معلومات ایک بڑے نظام کے ہاتھوں میں آجائیں، تو فرد کی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
آج، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہماری سرگرمیوں، پسند، ناپسند اور بات چیت کے ڈیٹا کو محفوظ کرتی ہیں، اور اسی بنیاد پر مخصوص سسٹم (algorithm) کے ذریعے اشتہارات، فیصلے اور خبریں ہمارے سامنے لاتی ہیں۔ اسی خدشے کا اظہار، اس سیریز میں نصف صدی پہلے ظاہر کردیا گیا تھا۔
مصنوعی ذہانت اور انسان
اس سیریز کی کئی اقساط میں خودکار مشینوں اور انسانوں پر ان کے ممکنہ کنٹرول کو موضوع بنایا گیا۔ اس وقت یہ ایک خیالی تصور تھا، مگر آج ChatGPT، روبوٹکس اور خودکار نظاموں کے دور میں یہ بحث حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
سیریز میں دکھایا گیا کہ اگر مشینیں خود سوچنے لگیں تو وہ انسانوں سے بہتر فیصلے بھی کر سکتی ہیں۔ مگر سوال اٹھایا گیا کہ کیا وہ ہمدردی، اخلاق اور احساس جیسی صفات میں انسانوں کی جگہ لے سکیں گی؟ یہی سوال آج ہم مصنوعی ذہانت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی پر مستقل انحصار
بی بی سی کی اس مشہور سیریز میں اس خطرے کو بھی دکھایا گیا کہ جس ٹیکنالوجی کو ہم سہولت سمجھتے ہیں، وہی ہمیں اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ آج ہمارا دن اسمارٹ فون سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔ ہم راستے، خبریں، تفریح، حتیٰ کہ اپنی یادیں بھی مشینوں کے سپرد کر چکے ہیں۔
سیریز نے خبردار کیا تھا کہ اگر ہم نے ٹیکنالوجی پر اندھا اعتماد کر لیا، تو ہم خود اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ ایک ایسا خیال جو آج پہلے سے کہیں زیادہ سچ لگتا ہے۔
یادداشت کی منتقلی
ایک اور دلچسپ قسط “The Last Lonely Man” میں انسانی یادداشت کو ایک شخص سے دوسرے میں منتقل کرنے کا تصور پیش کیا گیا۔
اگرچہ یہ اب تک ممکن نہیں ہوا، لیکن نیوروسائنس اور ڈیجیٹل بایولوجی کے میدان میں سائنسدان انسانی دماغ کے ڈیٹا کو سمجھنے اور شاید مستقبل میں اسے “محفوظ” یا “منتقل” کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
یہ وہی خیال ہے جو آج Brain–Computer Interfaces اور نیورل لنک جیسے پروجیکٹس میں جھلکتا ہے۔