پاکستانی ڈرامہ سیریل میں منٹو نہیں ہوں‘ اپنی منفرد مگر متنازع کہانی کے باعث ان دنوں سوشل میڈیا پر شدید بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمایوں سعید اور سجل علی کی جوڑی پر مبنی اس ڈرامے میں استاد اور طالبہ کے درمیان رومانوی تعلق دکھایا گیا ہے، جس نے ناظرین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
ایک طرف مداح اسے خلیل الرحمٰن قمر کی جرات مندانہ تحریر اور حقیقت پر مبنی عکاسی قرار دے رہے ہیں، تو دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے موضوعات تعلیمی اداروں اور معاشرتی اقدار کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈرامے کی کہانی میں استاد اور طالبہ کے درمیان رومانوی تعلق کو ’مرکزی خیال‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے ناظرین کے ساتھ ساتھ شوبز انڈسٹری میں بھی زبردست بحث چھیڑ دی ہے۔
اداکارہ عتیقہ اوڈھو، نادیہ خان اور شمون عباسی سمیت کئی فنکاروں نے ڈرامے کے مواد کو ”غیر اخلاقی“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے موضوعات تعلیمی ماحول اور سماجی اقدار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی صارفین کے درمیان گرما گرم بحث جاری ہے۔ کچھ صارفین اسے خلیل الرحمٰن قمر کی بولڈ مگر حقیقت پر مبنی تحریر قرار دے رہے ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ غیر مناسب اور حد سے تجاوز کرنے والا موضوع ہے۔
’لاہور کے تعلیمی اداروں کا بڑا فیصلہ‘۔ ڈرامہ شوٹنگ پر پابندی
ڈرامے میں دکھائے گئے استاد اور طالبہ کے اس تعلق نے نہ صرف ناظرین کو تقسیم کر دیا بلکہ لاہور کے تعلیمی اداروں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔
اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے انکشاف کیا ہے کہ وہ حال ہی میں لاہور گئی تھیں، جہاں انہیں معلوم ہوا کہ متعدد اسکولز اور یونیورسٹیز نے اب اپنے کیمپس ڈراموں کی شوٹنگ کے لیے دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ”میں منٹو نہیں ہوں“ کے نشر ہونے کے بعد ایک تعلیمی ادارے کو شدید عوامی ردِعمل اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ڈرامے میں غیر اخلاقی مواد دکھایا گیا تھا۔
عتیقہ اوڈھو نے مزید کہا کہ اب تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ شوٹنگ کی اجازت دینے سے پہلے ڈرامے کا مکمل اسکرپٹ مانگیں، تاکہ وہ پیش کیے جانے والے مواد اور بیانیے پر کنٹرول رکھ سکیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے ملا جلا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ ڈرامے میں اس طرح کے استاد اور طالبہ کے تعلق کو صرف سماجی حقیقت کی عکاسی سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
بیشتر صارفین نے تعلیمی اداروں کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے تعلیمی ماحول کا تقدس برقرار رہے گا اور غیر ضروری تنازعات سے بچا جا سکے گا۔




ایک طرف بحث کا موضوع ڈرامے کی بولڈ کہانی اور دلچسپ مکالمے ہیں جبکہ دوسری جانب استاد اور طالبہ کا رومانوی تعلق اخلاقی حدود سے متصادم ہے۔ بڑھتی ہوئی تنقید اور تعلیمی اداروں کے نئے اقدامات کے بعد یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ڈرامے کی کامیابی یا اس کی سمت میں کس نوعیت کی تبدیلی آتی ہے، آیا یہ تنازع اس کی مقبولیت کو متاثر کرے گا یا اسے مزید شہرت دلائے گا۔
























