جاپان کی وزیراعظم سانائے تاکائچی نے حالیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ وہ روزانہ صرف دو سے چار گھنٹے ہی سوتی ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ان پر ملک میں زیادہ کام کی ثقافت کو فروغ دینے کے الزامات پہلے ہی لگ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے تاکائچی نے اپنے معاونین کو رات 3 بجے بجٹ کمیٹی کی تیاری کے لیے طلب کیا، جس کا اجلاس محض چھ گھنٹے بعد ہونا تھا۔ یہ واقعہ ان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی کہا تھا کہ وہ ”کام، کام، کام اور صرف کام“ کریں گی۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ، ’میں اس وقت تقریباً دو گھنٹے سوتی ہوں، زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میری آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے ہیں۔‘
سعودی عرب میں پاکستانی نرسوں کے لیے نوکریاں، تنخواہ کتنی؟
جاپان برسوں سے اس مسئلے کا شکار ہے کہ وہاں ملازمین سے اوور ٹائم اور طویل گھنٹے کام کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اسی ثقافت کے نتیجے میں ”کرُوشی“ (زیادہ کام کے باعث موت) جیسی اصطلاح سامنے آئی، جو ہر سال درجنوں زندگیاں نگل رہی ہے۔
جاپان میں ملازمت کا دباؤ اس حد تک جا پہنچا ہے کہ نوجوان جوڑے بھی بچے پیدا کرنے میں ہچکچاتے ہیں، جس کا براہِ راست تعلق ملک کی گھٹتی ہوئی شرحِ پیدائش سے جوڑا جاتا ہے۔
ورلڈ سلپ ڈے کی ایک تحقیق کے مطابق جاپانی شہری اوسطاً 7 گھنٹے 1 منٹ کی نیند لیتے ہیں، جو عالمی اوسط سے تقریباً 38 منٹ کم ہے۔ تاہم وزیراعظم کی صرف چار گھنٹے کی نیند عام جاپانیوں سے بھی کہیں کم ہے۔
تاکائچی کی کم نیند پر سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ اتحادی بھی فکر مند ہیں۔ سابق وزیرِ معیشت کین سائتو نے کہا کہ، ’مجھے ان کی صحت کی واقعی فکر ہے۔‘
جبکہ اپوزیشن رکن کاتسوہیتو نکاجیما نے وزیراعظم کو مزید آرام کا مشورہ دیا، جس پر وہ مسکرا دیں۔
1990 کی دہائی سے سیاست کا حصہ رہنے والی تاکائچی اپنی سخت محنت اور بے لچک انداز کے لیے جانی جاتی ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ بطور وزیراعظم وہ ورک لائف بیلنس کے تصور کو خود پر لاگو نہیں کریں گی۔ البتہ، عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ ان کے اس رویے سے ماتحت عملہ غیر معمولی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
عربی سے نابلد افراد کے لیے اسلام کو آسان کرنے والے اماراتی کانٹنٹ کرئیٹر فارس کون؟
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے صرف تین ہفتوں میں ہی وہ مسلسل سفری اور حکومتی سرگرمیوں میں الجھی رہیں۔ ملائشیا میں آسیان اجلاس، جنوبی کوریا میں اپیک سمٹ اور صدر ٹرمپ کے جاپان کے دورہ کے باعث جاپانی وزیراعظم کے نیند کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ جبکہ تائیوان کے معاملے پر چین کے ساتھ جاری کشیدگی بھی ان کے لیے ممکنہ طور پر بے خوابی کی وجوہات بن رہی ہے۔
اگرچہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ مزدوروں کی صحت کو اولین ترجیح دیں گی اور ایسے اقدامات لائیں گی جن سے ملازمین کام، خاندان اور آرام کو بہتر طریقے سے ترتیب دے سکیں، لیکن وہ خود اعتراف کرتی ہیں کہ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے اپنے لیے ورک لائف بیلنس کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا اپنا طرزِ زندگی ملک کے لاکھوں ملازمین کے لیے غلط مثال قائم کر سکتا ہے، جو پہلے ہی تھکن، ذہنی دباؤ اور اوور ٹائم کے بوجھ سے نمٹ رہے ہیں۔
























