تباہی اور جنگ کے سائے میں گھرے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اس ہفتے ایک ایسا منظر دیکھنے میں آیا جس نے علاقے میں خوشی اور امید کی ہلکی سی کرن پیدا کر دی۔

روایتی فلسطینی لباس میں ملبوس ایمان حسن لوہّا اور سوٹ پہنے ہوئے حکمت لوہّا دوسرے درجنوں جوڑوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹوٹی بکھری عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہے تھے۔

غزہ میں لوگ پھٹے نوٹ کیوں جوڑ رہے ہیں؟

جنگ زدہ ماحول میں ہونے والی اس اجتماعی شادی میں 54 فلسطینی جوڑے شامل تھے، جو غزہ میں دو برسوں سے جاری خونریزی، تباہی اور مصائب کے باوجود امید کی علامت بن گئے۔

27 سالہ حکمت لوہّا نے شادی سے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اس کے باوجود ہم نئی زندگی کی شروعات کر رہے ہیں۔ اللہ کرے یہ جنگ اب ختم ہوجائے۔‘

تصویر بشکریہ/ اے پی
تصویر بشکریہ/ اے پی

جنگ کے دوران شادی کی تقریبات تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں۔ تاہم عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ کے شہری آہستہ آہستہ اپنی روایات کی طرف لوٹ رہے ہیں، اگرچہ یہ تقاریب ماضی کی طرح پرشکوہ نہیں رہیں۔

خان یونس میں فلسطینی جھنڈے لہراتی بھیڑ کا جوش و خروش اپنی جگہ موجود تھا، مگر غزہ کے جاری بحران کی تھکن لوگوں کے چہرے بھی پڑھ رہی تھی۔ ایمان اور حکمت سمیت تقریباً ہر جوڑا جنگ کے دوران بے گھر ہوچکا ہے۔ شہروں کے محلے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں، غذائی قلت برقرار ہے اور ہر روز ایک نئی بے یقینی سر اٹھاتی ہے۔

 تصویر بشکریہ/ اے پی
تصویر بشکریہ/ اے پی

دونوں نوجوان، جو دور کے رشتہ دار بھی ہیں جنگ میں اپنا گھر چھوڑ کر دیرالبلح کے قریب ایک قصبے میں فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کھانے، پانی اور رہائش جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیے شدید جدوجہد کی ہے۔ حکمت کہتے ہیں، ’ہم باقی دنیا کی طرح خوش رہنا چاہتے تھے۔ میں پہلے اپنا گھر اور نوکری چاہتا تھا، لیکن آج میرا خواب صرف ایک مضبوط خیمہ ہے جہاں پناہ مل سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’زندگی واپس آنا شروع ہو گئی ہے، لیکن ویسی نہیں جیسی ہم نے امید کی تھی۔‘

’غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگے گا‘: نیتن یاہو

یہ شادی الفارس الشاہم نامی ایک امدادی ادارے نے منعقد کی، جسے متحدہ عرب امارات کی معاونت حاصل ہے۔ تنظیم نے جوڑوں کو تھوڑی سی مالی امداد اور گھریلو سامان بھی فراہم کیا تاکہ وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔

AAJ News Whatsapp

سماجی ماہر رندا سرحان کے مطابق فلسطینی شادی صرف ایک تقریب نہیں بلکہ ایک ثقافتی علامت ہے۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی آگے بڑھ رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’ہر نئی شادی آنے والی نسلوں کے تسلسل کی خبر دیتی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ یادیں اور نسلیں ختم نہیں ہوں گی۔ یہ جوڑے ناممکن صورتحال میں بھی زندگی جاری رکھیں گے۔“

شادی کے جلوس میں شامل گاڑیوں نے منہدم عمارتوں کے درمیان سے گزر کر حماد سٹی کا رخ کیا، جہاں خاندانوں نے موسیقی، نعروں اور جھنڈوں کے ساتھ جوڑوں کا استقبال کیا۔

تصویر بشکریہ/ اے پی
تصویر بشکریہ/ اے پی

ایمان، جو سفید، سرخ اور سبز روایتی لباس میں ملبوس تھیں، جشن کے بیچ بھی اپنے غم کو چھپا نہ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ شادی نے برسوں کی تکالیف کے بعد انہیں ایک چھوٹا سا سکون کا لمحہ دیا ہے، لیکن یہ خوشی اس دکھ سے بھی جڑی ہے کہ ان کے والد، والدہ اور دیگر اہلِ خانہ جنگ کے دوران مارے گئے۔

انہوں نے نم آنکھوں سے کہا، ’اتنے دکھ کے بعد خوش ہونا آسان نہیں۔ لیکن ان شاء اللہ ہم اینٹ پر اینٹ رکھ کر سب دوبارہ تعمیر کریں گے۔

تصویر بشکریہ/ اے پی
تصویر بشکریہ/ اے پی

More

Comments
1000 characters