ایرانی فلم ساز جعفر پناہی کو ایرانی عدالت نے ایک سال قید کی سزا سنائی ہے، ساتھ ہی ان پر سفر کرنے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔
بی بی سی کے مطابق یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب پناہی کی فلم ’اٹ واس جسٹ این ایکسیڈنٹ‘ نے امریکہ میں بڑے ایوارڈز حاصل کیے۔ 65 سالہ پناہی اس وقت نیو یارک میں موجود تھے جہاں اُن کی فلم نے گوتھم ایوارڈز میں تین ایوارڈز جیتے، جن میں بہترین ہدایتکار کا ایوارڈ بھی شامل تھا۔
سعودی عرب میں خالد بن ولید کی زندگی پر تاریخی فلم کی تیاری
پناہی کی فلم ’اٹ واس جسٹ این ایکسیڈنٹ‘ ایران میں حکومتی پابندیوں کے باوجود خفیہ طور پر بنائی گئی تھی اور یہ فلم فرانس کی جانب سے اگلے آسکرز کے لیے انٹرنیشنل فیچر فلم کے طور پر منتخب کی گئی ہے۔
پناہی کی سزا ایران کی حکومتی اتھارٹیز کے ساتھ اُن کے برسوں پرانے تنازعات کا نتیجہ ہے۔ اُن کی وکیل نے عدالت کے فیصلے کی تصدیق کی، جس میں قید کے ساتھ ساتھ پناہی کو سفر کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ پناہی کا ماضی بھی ایران کی عدلیہ سے تنازعات سے بھرا رہا ہے۔ 2010 میں انہیں حکومت مخالف احتجاجوں کی حمایت کرنے پر چھ سال کی سزا سنائی گئی تھی، اور 2022 میں وہ سات ماہ تک حراست میں رہے تھے کیونکہ انہوں نے دیگر فلم سازوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ پناہی پر فلم سازی کی سرکاری پابندیاں ہیں، انہوں نے اپنے کام کو جاری رکھا ہے اور ہمیشہ خفیہ اور مشکل حالات میں فلم سازی کی۔
گوتھم ایوارڈز میں اپنی کامیابی کے دوران، پناہی نے اپنا ایوارڈ آزاد فلم سازوں کے نام کیا اور کہا، وہ فلم ساز جو خاموشی سے کیمرہ چلاتے ہیں، بغیر کسی مدد کے، اور کبھی کبھار اپنی سب کچھ داؤ پر لگا کر، صرف سچائی اور انسانیت پر اپنے ایمان کے ساتھ، میں امید کرتا ہوں کہ یہ وقفہ اُن سب فلم سازوں کے لیے ایک چھوٹا سا خراج عقیدت ہو گا جنہیں نظر آنے یا دیکھنے کا حق چھین لیا گیا ہے، مگر وہ پھر بھی تخلیق کرتے ہیں اور موجود رہتے ہیں۔
ایک سے بڑھ کر ایک بڑی فلم، کیا ٹولی وُڈ نے بولی وُڈ کی جگہ لے لی؟
’اٹ واس جسٹ این ایکسیڈنٹ‘ نے بہترین اسکرین پلے اور بہترین انٹرنیشنل فلم کے ایوارڈز بھی جیتے، جس سے اس کی آسکرز میں کامیابی کی امیدیں مزید بڑھ گئیں۔
فلم کا پلاٹ پانچ ایرانیوں کے گرد گھومتا ہے جو ایک ایسے شخص سے ملتے ہیں جس پر الزام ہے کہ اس نے ماضی میں انہیں قید کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پناہی نے اس فلم کے حقیقی زندگی کے پس منظر کو کھل کر بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کہانی اُس وقت کے تجربات پر مبنی ہے جو انہوں نے جیل میں گزارے اور ایرانی حکومت کی ”تشدد اور بربریت“ کا سامنا کیا۔
حال ہی میں فنانشل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے پناہی نے ایران کے لیے اپنی وابستگی کے بارے میں بات کی۔ ایک ایرانی پناہ گزین سے بات چیت کے دوران، پناہی نے کہا، ”وہ میری واپسی کے بارے میں فکر مند تھیں، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں ایران کے باہر نہیں رہ سکتا، اور میں کہیں اور ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ اور میں نے کہا کہ مجھے فکر نہیں کہ حکام اور کیا کرسکتے ہیں، کیونکہ حکام وہ سب کچھ کر چکے ہیں جو وہ کر سکتے تھے۔“
پناہی کی ’اٹ واس جسٹ این ایکسیڈنٹ‘ نے اس سال کانز فلم فیسٹیول میں بہترین ایوارڈ جیتا تھا اور اب یہ عالمی سطح پر اہمیت حاصل کر چکی ہے۔
























