کراچی میں پاکستانی بنگالی کمیونٹی کے مسائل کی داستان سناتی نمائش کو کاغذی کشتیاں کے عنوان سے پیش کیا گیا ۔

کراچی میں زمانے سے بسنے والے 20لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل بنگالی کمیونٹی مقیم ہیں جو سال ہا سال سے اپنی شہریت حاصل کرنے کیلئے دربدر کے دکھے کھارہے ہیں ۔

کراچی کے انڈس ویلی اسکول میں منعقد ہونے والی اس نماش میں بنگالی کمیونٹی کے زندگی کے مسائل اور ان کے رہن سہن کی جھلک دیکھنے کو ملی ۔

اس کمیونٹی کے زیادہ تر افراد یا تو فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں یا ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔

نمائش کی منتظمین ڈاکٹر حمیرا کہتی ہیں کہ یہاں 30 لاکھ بنگالی رہتے ہیں ان کی زبان اور کلچر مختلف جیسے ہمیں سیلیبریٹ کرنا چاہیئے ۔

ڈاکٹر حمیرا کہتی ہیں کہ ہم نے کراچی کے مختلف علاقے جن میں تیسر ٹاون ، مچھر کالونی ، موسی کالونی سمیت دیگر علاقوں میں رہنے والے 80 سے زائد افراد کے انٹرویوز کئے جس میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان انٹرویوز سے ہم نے ان لوگوں کے بارے میں جانا تاہم ہم نے اپنی ریسرچ کو آرٹسٹ کے سامنے رکھا جس کے بعد آرٹسٹوں نے اپنے فن سے اس کو شکل دی ۔

ان کا کہنا تھا کہ جتنے انٹرویوز ہم نے کئے اس میں ایک شکایت ایسی تھی جو سب سے زیادہ سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ انہیں شہریت کے برار حقوق دیئے جائیں ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پالیسی تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا کیونکہ جب یہ اپنے شناختی بنوانے جاتے ہیں تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

نمائش میں جمناسٹک میں حصہ لینے والے پاکستانی بنگالیوں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا یہ وہ بچے ہیں جو جمناسٹک جیسے کھیل میں مہارت رکھنے باوجود شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کھیل کے شعبے میں آگے نہیں جاپاتے ہیں۔

بنگالی کمیونٹی کی حقوق کے جدوجہد کرنے والی طاہرہ سعید نے آج ٹی وی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آرٹ اور لٹریچر کے زریعے تو انقلاب بھی آئے ہیں تاہم ہم نے آرٹ کےزریعے ان لوگوں کے مسائل سب کے سامنے پیش کیا ہے ۔

بنگالی کمیونٹی کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت سی آبادی ایسی ہیں جن کے پاس 1971 کے بعد سے دستاویزات تھے اور ہمارا قانون یہ کہتا ہے کہ سن 71 اور 78 میں ہونے والی ہجرت میں جو لوگ یہاں آئے انہیں اپنی شناخت حاصل کرنے کا حق ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ شہریت حاصل کرنے کے قوانین میں ’برتھ رائٹ سٹیزن شپ ’ بھی شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ پاکستانی ہوگا لیکن ان لوگوں کو یہ حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث یہ لوگ نہ سم کارڈ لے سکتے ہیں نہ پراپرٹی خرید سکتے اس کے علاوہ تعلیم کا حصول، نوکری اور صحت کے شعبے میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔

نمائش میں آئے شرکاء کا کہنا تھا کہ کسی سنجیدہ مسلئے کو سنے اور آرٹ کی صورت میں دیکھنے میں بڑا فرق ہے ، آرٹ کے زریعے ہم وہ بات باآسانی لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جو عام طور پر کسی کو سمجھانے میں مشکل ہوتی ہو ۔

کاغذی کشتیاں سمندر کے ساتھ کمیونٹی کے تعلق کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ ان میں سے اکثر کا بطور ماہی گیر کام کرنا ہے یہ نمائش 18 مئی سے شروع ہوئی اور 26 مئی تک جاری رہے گی ۔

More

Comments are closed on this story.