اگر آپ کسی پہاڑی علاقے میں گھومنے جائیں تو وہاں آپ کو لازمی سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہوگی، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اونچائی پر ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ ہزاروں فٹ بلندی پر پرواز کرتے جہاز میں موجود ہوں تو آپ کو سانس لینے میں دشواری پیش نہیں آتی، جوکہ حیران کن ہے۔

اس سوال کا جواب ہوائی جہاز کے ڈیزائن اور اس کی مکینکس میں پوشیدہ ہے، یہ بات درست ہے کہ ہزاروں فٹ کی اونچائی پر سانس لینا محال ہوتا ہے، اسی لئے کوہ پیما اپنے ساتھ آکسیجن سلینڈرز لے کر جاتے ہیں، لیکن جہاز میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔

ہوائی جہاز میں روتے بسورتے بچوں کو خوش رکھنے کا طریقہ

دراصل جہاز کا انجن باہر کی ہوا کو کھینچ کر کیبن کے اندر پہنچاتا ہے، اور ہوا فیوزیلاج میں داخل ہونے کے بعد کیبن پریشر کے باعث کمپریس ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے اس میں موجود آکسیجن کی کم مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور مسافر ٹھیک سے سانس لے پاتے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر جہاز اتنی بلندی پر پرواز کرتے ہی کیوں کہ اتنے جھنجھٹ سے گزرنا پڑے؟

جب بیچ پرواز ہوائی جہاز کی چھت ہی اُڑ گئی

اس میں بھی متعدد عناصر کارفرما ہوتے ہیں، لیکن اس کا اصل جواز سفر میں تیزی اور طیاروں کو محفوظ رکھنا ہے۔

ہوائی جہاز میں پُرسکون نیند کیسے لیں؟ ماہرین کی تجاویز

طیارے جتنی زیادہ بلندی پر سفر کریں گے اردگرد کی ہوا میں کثافت اتنی ہی کم ہوگی اور طیاروں کو زیادہ تیز رفتاری سے سفر کرنے میں مدد ملے گی، اس طرح ایندھن بھی کم خرچ ہوتا ہے جبکہ مطلوبہ رفتار کو برقرار رکھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔

ہوائی جہاز کی کھڑکی کے نچلے حصے میں سوراخ کیوں ہوتا ہے

اس کے علاوہ 30 سے 42 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے طیاروں کو پرواز کے دوران مختلف موسمیاتی مسائل سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

اس اونچائی پر طیارہ بادلوں سے اوپر سفر کرتا ہے۔

More

Comments are closed on this story.