تعلیم ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو کامیابی، شعور، اور بہتر زندگی کی طرف لے جاتا ہے، لیکن جب یہی تعلیم حد سے بڑھ کر ایک دباؤ بن جائے تو یہ راستہ آسانی کے بجائے ذہنی پیچیدگیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیمی کامیابی کو زندگی کی کلید سمجھا جاتا ہے، اور یہی سوچ اکثر بچوں اور نوجوانوں کو اس قدر دباؤ کا شکار کر دیتی ہے کہ وہ اپنی ذہنی صحت، خود اعتمادی اور یہاں تک کہ اپنی شناخت تک کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
اکیڈمک پریشر کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے؟
اکیڈمک پریشر یعنی تعلیمی دباؤ درحقیقت کئی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے،
والدین کی طرف سے دباؤ
والدین کی محبت اور خیر خواہی کبھی کبھی ناسمجھی میں دباؤ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بچے کو بہتر دیکھنے کی خواہش اس پر توقعات کا بوجھ بن جاتی ہے، جس کا مقصد اچھا ہوتا ہے، لیکن اثرات اکثر منفی نکلتے ہیں۔
چین: 6 سے 7 سال کے بچوں سے تحریری امتحان لینے پر پابندی
نظام تعلیم کی سختی
ہمارے تعلیمی نظام میں کورس کا بوجھ، غیرمتعلقہ مضامین اور ناقص تدریسی طریقے ایسے عناصر ہیں جو طلبہ کے لیے تعلیم کو دلچسپ بنانے کے بجائے تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔
غیر حقیقی تقابلی ماحول
طلبہ کا موازنہ ایک دوسرے سے کرنا، یا ان سے اعلیٰ غیر حقیقی اہداف کی امید رکھنا، نہ صرف ان کی خود اعتمادی کو مجروح کرتا ہے بلکہ ان میں احساسِ کمتری اور ناکامی کا خوف بھی پیدا کرتا ہے۔
امتحانات کا خوف
تعلیمی سال کا اختتام جب امتحانات کی صورت میں آتا ہے تو طلبہ کو صرف اپنی محنت نہیں بلکہ نتائج سے جڑے سماجی اور گھریلو ردعمل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ کم نمبر آنا صرف تعلیمی ناکامی نہیں، بلکہ بسا اوقات والدین کی مایوسی یا سماج کی تنقید کا باعث بن جاتا ہے۔
اسلام آباد کے طالب علموں کے لئے بورڈ کے امتحان کی پالیسی ختم کر دی گئی
اکیڈمک پریشر کی علامات
جب تعلیمی دباؤ حد سے بڑھ جائے تو اس کی کچھ واضح علامات سامنے آتی ہیں، مثلا ذہنی بے چینی اور نیند کی کمی، بار بار سر درد یا جسمانی کمزوری، دل لگانے میں مشکل، ارتکاز کی کمی، کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی، منفی خیالات اور خود پر مایوسی، اور جذباتی ہونا یا غیرمعمولی غصہ۔
نفسیاتی اثرات
طویل عرصے تک اکیڈمک پریشر کا سامنا کرنے والے طلبہ جن مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں ان میں، ڈپریشن اور انگزائٹی، خود اعتمادی میں شدید کمی، سماجی بیگانگی، نشہ آور عادات کی طرف میلان، خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات
ان تمام پریشر یا دباؤ میں کمی کے لئے اکیڈمک پریشر کا مثبت انداز میں مقابلہ کیسے کیا جائے؟ تو اس کے لئے ہمیں اپنے انداز اور طریقے میں کچھ تبدیلیاں ضرور کرنی ہونگی۔ مثلا مطالعے کو آسان کریں یعنی متوازن بنائیں، سارا دن صرف پڑھائی میں ڈوبے رہنے کے بجائے وقفے، جسمانی سرگرمی، نیند اور تفریح کو بھی معمول کا حصہ بنائیں۔
گروپ اسٹڈی کریں اور مطالعہ اکیلے کرنے کے بجائے دوستوں یا ہم جماعتوں کے ساتھ گروپ میں کرنے سے بوریت کم اور سیکھنے کا عمل دلچسپ بن سکتا ہے۔
اہم بات یہ کہ اپنی صلاحیت کو پہچانیے۔ ہر طالب علم کا رجحان، رفتار اور دلچسپی مختلف ہوتی ہے۔ دوسروں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنی بہتری پر توجہ دیں۔
کسی ایکسپرٹ سے رہنمائی حاصل کریں، کبھی کبھار اسکول کاؤنسلرز، اساتذہ یا خاندان کے کسی ہمدرد فرد سے مشورہ لینے سے دباؤ کم ہو جاتا ہے اور نئے زاویے سے حل سامنے آ سکتے ہیں۔
سماجی دباؤ اور خواہشات، مردوں میں ڈپریشن کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟
ایک بات یاد رکھیں کہ تعلیم زندگی کا اہم پہلو ہے، لیکن صرف یہی سب کچھ نہیں۔ طلبہ کو سکھائیں کہ وہ خود کو صرف نمبروں کی بنیاد پر نہ پرکھیں۔
اکیڈمک پریشر اگرچہ ہر تعلیمی سفر کا ایک حصہ ہے، لیکن جب یہ شدت اختیار کر لے تو نہ صرف طلبہ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کے خواب، اعتماد اور مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
مختصرا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ امتحانات کا بوجھ طلبہ میں عام طور پر والدین کی توقعات، ہم عمر طلبہ سے مقابلے، نامکمل نصاب اور ناکامی کے خوف کی وجہ سے بڑھتا ہے۔ اس دباؤ سے بچنے کے لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ سال کے آغاز سے ہی باقاعدہ مطالعہ شروع کریں تاکہ نصاب وقت پر مکمل ہو جائے اور دہرانے کا وقت بھی ملے۔ وقت کی منصوبہ بندی بہت ضروری ہے؛ دن کے مختلف حصوں میں پڑھائی، آرام، اور نیند کو مناسب وقت دینا چاہیے۔ مثبت سوچ اپنانا، باقاعدہ ورزش، اور ذہن کو پرسکون رکھنے والی سرگرمیاں جیسے مراقبہ، گہری سانسیں لینا یا موسیقی سننا بھی بہت مؤثر ہیں۔ اگر طلبہ اپنے مطالعے کا مواد منظم رکھیں اور اپنی طاقت پر اعتماد رکھیں تو امتحانی دباؤ کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور وہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔