آج کے دور میں ’کُول‘ (Cool) ہونا ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جو فیشن، شہرت، اثرورسوخ اور شخصیت کے اظہار کا مترادف بن چکا ہے۔ لیکن کیا واقعی ’کُول ہونا‘ ایک ایسی خوبی ہے جس کے پیچھے دوڑ لگانا چاہیے؟ کیا ’کول‘ ہونا کسی کی زندگی میں کامیابی، خوشی یا طویل المدتی خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے؟ ایک حالیہ بین الاقوامی مطالعہ نے ان سوالات کے حیران کن جوابات فراہم کیے ہیں۔

’جرنل آف ایکسپیریمنٹل سائیکالوجی‘ جنرل میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں دنیا کے 12 مختلف ممالک سے تقریباً 6,000 افراد نے شرکت کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ ’کول‘ اور ’اچھے‘ افراد کو کیسے پہچانتے ہیں؟ حیرت انگیز طور پر، بیشتر شرکاء نے کول ہونے کے لیے جو صفات بیان کیں، وہ عالمی سطح پر تقریباً ایک جیسی تھیں، چاہے وہ امریکہ میں رہتے ہوں یا مشرقی ایشیا میں۔

تحقیق کے مصنف، یونیورسٹی آف ایریزونا کے پروفیسر کیلب وارن کے مطابق، ’یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ دنیا بھر میں کول ہونے کا تصور تقریباً ایک جیسا ہے۔‘

آج کل کے نوجوان سوشل میڈیا سے کیا سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ حیران کن انکشاف

کول اور اچھے افراد میں فرق کیا ہے؟

تحقیق میں شرکاء سے کہا گیا کہ وہ چار اقسام کے لوگوں کے بارے میں سوچیں، ایک جو کول ہو، ایک جو نہ ہو، ایک جو اچھا ہو، ایک جو نہ ہو۔ پھر ان کی شخصیات کو 15 صفات کے ذریعے جانچا گیا۔

مطالعے کے مطابق، کول افراد کو بہادر، خودمختار، پرکشش، جدید اور نمایاں سمجھا گیا۔ جبکہ اچھے افراد کو روایتی، نرم خو، سادہ، وفادار، ہمدرد، پرامن اور ضمیر کا پابند تصور کیا گیا۔ کچھ صفات جیسے قابلیت اور مہارت دونوں اقسام کے افراد میں مشترک تھیں۔

کول ہونے کی ثقافتی جڑیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا گیا جو لفظ ’Cool‘ کو انگریزی میں سمجھے بغیر ترجمہ کے پہچانتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ’کول‘ ہونے کا یہ مغربی تصور، خاص طور پر امریکی ثقافت سے متاثر ہوکر، دنیا کے مختلف معاشروں میں پھیل چکا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور ماہر بشریات جوزف ہینرچ کے مطابق، ’امریکی موسیقی، فلم اور ثقافتی اثرات نے کول ہونے کے نظریے کو عالمی طور پر پھیلایا ہے۔‘

جوتے، سن گلاسز، جینز اور ہر چیز کی آرائش کے لیے زیورات ضروری کیوں؟

کول ہونے کی عمر اور اس کے اثرات

تحقیق میں شامل بیشتر افراد کی عمر 30 سال یا اس سے کم تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کول ہونے کی خواہش نوجوانی میں سب سے زیادہ شدت اختیار کرتی ہے۔ دیگر تحقیقاتی مطالعات بھی بتاتے ہیں کہ نو عمر افراد ’کول‘ نظر آنے کے لیے اپنی گفتگو، انداز، تفریح، حتیٰ کہ خریداری کے انتخاب تک میں تبدیلی لاتے ہیں۔

تاہم، ماہر نفسیات مچ پرنسٹین کے مطابق، ’کچھ مغربی معاشروں میں جارحانہ رویہ کول یا بااثر ہونے کی علامت ہو سکتا ہے، جبکہ مشرقی معاشروں میں یہی رویہ ناپسندیدہ تصور ہوتا ہے۔‘

کیا کول ہونا واقعی قابلِ تقلید ہے؟

اس سوال پر پروفیسر وارن خود شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نہیں سمجھتا کہ کول ہونے کی دوڑ کوئی ایسی چیز ہے جو قابلِ تعریف ہو۔‘

2014 کی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو نوعمری میں ’کول‘ بننے کی کوشش میں حد سے زیادہ خطرات مول لیتے ہیں، جیسے جلد بازی، منشیات یا شراب نوشی، وہ بعد کی زندگی میں الجھن، تعلقات کی خرابی اور جذباتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر پرنسٹین کے مطابق اسکولوں میں ’کول‘ بچوں کی مقبولیت اکثر غلبہ، توجہ حاصل کرنے اور خودنمائی سے جڑی ہوتی ہے، مگر زندگی کی اصل کامیابی ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو محبت، تعلق اور دوستی میں مہارت رکھتے ہیں۔

’حتیٰ کہ اگر کوئی بچہ بالکل بھی کول نہ ہو، لیکن اس کا ایک سچا دوست ہو، تو وہ زندگی میں اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہے،‘ ڈاکٹر پرنسٹین کہتے ہیں۔

فوربز کی فہرست میں شامل 30 سال سے کم عمر پاکستانی نوجوان کون ہیں؟

کول ہونے کی حقیقت اور فریب

کول ہونا اگرچہ نوجوانوں کے لیے پرکشش ہوسکتا ہے، مگر تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طویل المدتی کامیابی، ذہنی سکون اور زندگی کی خوشی ان اقدار سے حاصل ہوتی ہے جو ’اچھا انسان‘ ہونے سے وابستہ ہیں، جیسے ہمدردی، دیانت، امن پسندی اور انسانیت۔

کول ہونا اگر انسان کو دوسروں سے الگ دکھانے کا ذریعہ بنتا ہے، تو اچھا ہونا دوسروں کے دل میں جگہ بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور شاید، یہی فرق زندگی کے اصل معیار کا تعین کرتا ہے۔

More

Comments
1000 characters