ہزاروں سال قدیم غاروں میں رہنے والے انسان بھی آج والی گھریلو پریشانی میں مبتلا تھے؟
آج کے دور میں ’آج کھانے میں کیا بنے گا؟‘ کا سوال ہر گھر میں روز کا معمول بن چکا ہے۔ کبھی سبزی، کبھی گوشت، کبھی بچے نخرے کرتے ہیں تو کبھی ساس بہو میں بحث چھڑ جاتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ’کھانے کا مسئلہ‘ صرف ہماری نسل کا نہیں؟ حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہزاروں سال پہلے غاروں میں رہنے والے نینڈرتھلز یعنی ہمارے قدیم انسانی رشتہ دار – بھی کھانے کے انتخاب اور تیاری میں اپنے الگ الگ انداز اور ترجیحات رکھتے تھے۔
نیئنڈرتھلز کون تھے؟
نیئنڈرتھلز (Neanderthals) قدیم انسانوں کی ایک الگ نسل تھے جو آج سے تقریباً چار لاکھ سے چالیس ہزار سال پہلے یورپ، مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ یہ انسانوں کی موجودہ نسل یعنی ’ہوموسیپیئنز‘ کے قریبی رشتہ دار تھے، لیکن مکمل طور پر جدید انسان نہیں تھے۔
نیئنڈرتھلز جسمانی طور پر مضبوط، چوڑے جسم والے اور سخت موسموں کا مقابلہ کرنے کے قابل تھے۔ ان کے دماغ کا سائز تقریباً ہمارے جتنا ہی تھا بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذہین مخلوق تھے۔ وہ شکار کرتے تھے، پتھر کے اوزار بناتے تھے، آگ کا استعمال کرتے تھے اور غاروں میں رہتے تھے۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیئنڈرتھلز اور جدید انسانوں کے درمیان آپس میں تعلق اور میل جول بھی رہا ہے، یہاں تک کہ کچھ جدید انسانوں کے ڈی این اے میں نیئنڈرتھلز کے جینز بھی پائے گئے ہیں۔
نینڈرتھلز کی’کچن سٹوری’
اسرائیل کی دو غاروں، ’امود‘ اور ’کبارہ‘ میں ماہرین نے ایسی ہڈیوں کے نمونے دریافت کیے جن پر گوشت کاٹنے کے واضح نشان تھے۔ یہ ہڈیاں تقریباً 50 ہزار سال سے 70 ہزار سال پرانی ہیں۔ ان کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ دونوں جگہوں پر رہنے والے نینڈرتھلز، ایک ہی قسم کے جانوروں جیسے ’غزال اور ہرن‘ کا شکار کرتے تھے، ایک جیسے ’آلات (فلنٹ ٹولز)‘ استعمال کرتے تھے، لیکن گوشت کاٹنے اور پکانے کا ’انداز مختلف‘ تھا۔
ہیڈرین وال پر پائے جانے والے دیوہیکل جوتوں نے قدیم فوجیوں سے متعلق سوالات اٹھا دیے
گویا ’ریسپی‘ وہی تھی، لیکن ’کوکنگ اسٹائل‘ الگ۔ امود بمقابلہ کبارہ سیکھیں تو ایک باورچی مقابلہ کہہ سکتے ہیں۔ تحقیق میں یہ دلچسپ فرق سامنے آیا کہ ’امود‘ کے نینڈرتھلز گوشت کو زیادہ جلایا کرتے تھے اور ہڈیوں پر کٹائی کے نشانات زیادہ اور گولائی میں تھے، جیسے کہ کسی نے بار بار چاقو مارا ہو یا گوشت چپکا ہوا تھا۔ جبکہ ’کبارہ‘ کے نینڈرتھلز زیادہ صاف اور سیدھی کٹائی کرتے تھے، جیسے کہ ماہر قصائی ہوں۔
یہ فرق صرف جانور یا جسم کے حصے کی بنیاد پر نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جب صرف ایک ہی جانور غزال اور اس کے ایک ہی حصے کا تجزیہ کیا گیا، تب بھی دونوں غاروں کے نینڈرتھلز کا گوشت کاٹنے کا طریقہ الگ تھا۔
تہام ماہرین نے اس فرق کی کئی ممکنہ وجوہات بتائی ہیں، جس میں ذاتی یا خاندان کی پسند کا عنصر شامل نظر آتا ہے۔ ایک گروہ کو نرم گوشت پسند تھا، دوسرے کو سخت یا بھنا ہوا۔ اسکے علاوہ سیکھنے کا طریقہ بھی الگ تھا، جیسے آج ہر گھر میں دال بنانے کا الگ انداز ہوتا ہے، ویسے ہی ان قدیم انسانوں نے بھی مختلف طریقے سیکھے اور سکھائے۔ اور ایک گروہ نے شاید تازہ گوشت استعمال کیا، دوسرا کچھ دن پرانا یا سوکھا ہوا۔
قدیم مصر کے باشندے کینسر کا علاج بھی جانتے تھے؟
ڈاکٹر میٹ پوپ، جو تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے کہا، ’یہ صرف ہڈیوں پر نشان نہیں، بلکہ یہ نینڈرتھلز کی روزمرہ زندگی، ان کی حرکات و سکنات اور عادات کا پتہ دیتے ہیں، بالکل ویسے جیسے کسی غار کی دیوار پر ہاتھ کا نشان۔‘
یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ نینڈرتھلز کی زندگی میں بھی ’ثقافتی تنوع‘ تھا۔ وہ سب ایک جیسے نہیں تھے۔ ان کی اپنی الگ ’زندگی گزارنے کی طرز‘، کھانے پکانے کی ’ریسپی‘ اور شاید ’منیو ڈسکشن‘ بھی ہوتی تھی۔