ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں۔ جی ہاں رجحان، چیزیں اور معاملات بدل رہے ہیں، اور اسی تبدیلی کے دوران سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی دنیا بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اب تک یہ پیشہ اپنے فالوورز کی تعداد اور شہرت کی بنیاد پر مقبول تھا، لیکن حالیہ سروے نے ایک حیران کن حقیقت سامنے لا دی ہے، اورعوام کی اکثریت اب انہیں سب سے زیادہ غیر معتبر پیشہ سمجھتی ہے۔

چاہے فیشن، خوبصورتی یا مالیاتی مشورے کا معاملہ ہو، صارفین زیادہ شفافیت اور سچائی چاہتے ہیں اور وہ ایسے انفلوئنسرز پر ہی اعتماد کرتے ہیں جو حقیقی تجربے اور تحقیق پر مبنی مواد پیش کریں۔ یہ تبدیلی نہ صرف انفلوئنسرز کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے بلکہ مارکیٹنگ اور برانڈز کے تعلقات کے طریقے کو بھی بدل رہی ہے۔

خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق یو اے ای میں ہونے والے تازہ ترین ’ورسٹ ریپیوٹیشن سروے‘ نے حیران کن انکشاف کیا ہے۔ پہلی بار سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو ملک کا سب سے زیادہ غیر معتبر یا ناقابلِ اعتماد پیشہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف عوامی سوچ میں بڑی شفٹ کو ظاہر کرتی ہے بلکہ مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔

سروے کے مطابق اکیس فیصد شرکاء نے کہا کہ انفلوئنسرز بدترین ساکھ والے ہیں، جب کہ انیس فیصد نے کال سینٹرز اور ٹیلی مارکیٹرز کو، تیرہ فیصد نے کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کو، گیارہ فیصد نے ریکروٹمنٹ فرمز کو اور آٹھ فیصد نے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کو ناقابلِ اعتماد پیشوں میں شامل کیا۔

ماہرین کے مطابق یہ اعتماد میں کمی اس وجہ سے آئی ہے کہ انفلوئنسرز اکثر اشتہارات کے حقائق کو چھپا کر پیش کرتے ہیں، شفافیت سے کام نہیں لیتے اور کبھی کبھار ایسا مشورہ دیتے ہیں جو صارفین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر مالیاتی مشورے دینے والے انفلوئنسرز یا ’فن فلوئنسرز‘ پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔

AAJ News Whatsapp

خود انفلوئنسرز بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ شامی نژاد کینیڈین ’لانا قعطی‘، جو دس برس سے اس فیلڈ میں ہیں اور پچاس ہزار سے زائد فالوورز رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ معیار گرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے نئے لوگ صرف تیز پیسہ کمانے یا تحفے لینے کے لیے انفلوئنسر بنتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اصول بنا رکھے ہیں اور ایسی مصنوعات کی پروموشن سے فوراً انکار کر دیتی ہیں جن پر وہ خود یقین نہ رکھتی ہوں، خاص طور پر جعلی ڈائیٹ مصنوعات یا ایسی اشیاء جو بچوں کے لیے غیر محفوظ ہوں۔

عام صارفین کی رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ یو اے ای کے شہری ہاجر حسن کے مطابق انفلوئنسرز کی آن لائن زندگی حقیقت سے مختلف ہوتی ہے اور یہی بناوٹی طرزِ عمل ان کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔

یہ سروے اس بات کا ثبوت ہے کہ صارفین اب زیادہ باشعور ہو رہے ہیں اور صرف انہی انفلوئنسرز پر بھروسہ کرتے ہیں جو شفافیت اور سچائی سے بات کریں۔

دوسری جانب حکومت نے بھی حالیہ برسوں میں ریگولیشنز متعارف کروائے ہیں تاکہ صارفین کو دھوکہ دہی سے بچایا جا سکے۔ واضح ہے کہ مستقبل میں اس صنعت کے لیے کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہو گی جب اعتماد کی بحالی کے لیے حقیقی اقدامات کیے جائیں گے۔

یہ رجحان براہِ راست یو اے ای کی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کی دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اب برانڈز کو زیادہ محتاط ہونا ہوگا کہ وہ کن انفلوئنسرز کے ساتھ شراکت داری کر رہے ہیں۔ صرف وہی افراد کامیاب ہو سکیں گے جو اپنی کمیونٹی کے ساتھ سچا تعلق رکھتے ہوں اور ان کا مواد تحقیق اور ذاتی تجربے پر مبنی ہو۔ مستقبل قریب میں مارکیٹنگ کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ’’اعتماد‘‘ ہی ہوگا۔

More

Comments
1000 characters