اپنی سریلی آواز، باوقار شخصیت اور لازوال گیتوں سے دلوں پر راج کرنے والی ماضی کی مشہور فنکارہ مسرت نذیر آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اگرچہ وہ طویل عرصے سے اسکرین سے دور ہیں، مگر مداحوں کا تجسس برقرار ہے کہ آخر مسرت نذیر آج کل کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟

پاکستانی فلم اور موسیقی کی دنیا میں ایک نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور وہ نام ہے مسرت نذیرکا۔ جن کے گائے ہوئے پنجابی اور اردو فلموں کے نغمے اور اداکاری کے یادگار کردار اب بھی نیا جادو جگاتے ہیں۔

مسرت نذیر نے لاہور کے ایک متوسط پنجابی کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد، نذیر احمد، لاہور کے میونسپل کارپوریشن میں کنٹریکٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ والدین کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے۔ اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو بہترین تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔

زندگی نہیں، عزت کی دعا دیں‘: عشرت فاطمہ کا اپنے انتقال کی افواہوں پر ردِعمل

مسرت نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور اس کے بعد کنیئرڈ کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا۔

انہیں ہمیشہ سے موسیقی سے گہرا شغف رہا تھا۔ انہوں نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔

ریڈیو سے آمدنی ناکافی ہونے کی وجہ سے مسرت نے فلموں کا رخ کیا۔ 1955 میں وہ مشہور فلم ڈائریکٹر انور کمال پاشا سے ملیں۔ کمال پاشا نے ان کے اندرچھپے ٹیلنٹ کو پہچانتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری میں بھی طبع آزمائی کریں۔

سجل علی اور احد رضا میر پھر ایک دوسرے کے قریب؟ سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں شروع

والدین سے فلموں میں کام کرنے کی اجازت لینے کے بعد، پاشا نے ان کا فلمی نام ”چاندنی“ رکھا اور اپنی فلم ”قاتل“ (1955) میں انہیں کاسٹ کیا۔

AAJ News Whatsapp

اسی سال، وہ پنجابی فلم ”پتن“ میں نظر آئیں، جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ بعد ازاں، مسرت نذیر نے پاٹے خان ، ماہی منڈا، یکے والی، زہرِ عشق ، یار بیلی اور کرتار سنگھ جیسی کامیاب فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔

ان کے گائے ہوئے مشہور گیت، ”لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیّا“، ”میرا لونگ گواچہ“ آج بھی شادیوں اور تہواروں میں شوق سے سننے اور گانے جاتے ہیں۔

انہوں نے ریڈیو اور فلم دونوں کے لیے درجنوں یادگار گیت گائے، جنہوں نے انہیں عوامی مقبولیت اور لازوال عزت دلائی۔

مسرت نذیر کو اپنے فنی کیریئر کے دوران پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔

1965 میں مسرت نذیر نے ڈاکٹر ارشد مجید سے شادی کی اور کینیڈا منتقل ہو گئیں۔ شادی کے بعد انہوں نے فلمی دنیا کو خیرباد کہہ کر اپنی نجی زندگی پر توجہ دی۔ ان کے بیٹے عمر مجید ایک معروف فلم میکر ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا میں ہی مقیم ہیں۔

1970 کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے کچھ عرصے کے لیے لاہور واپسی کی کوشش کی، مگر بعد ازاں دوبارہ کینیڈا منتقل ہو گئیں، جہاں وہ اب بھی اپنے خاندان کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔

مسرت نذیر اگرچہ اب شوبز سے دور ہیں، لیکن ان کی تصاویر وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان کے مداح آج بھی انہیں دعاؤں اور محبتوں سے یاد کرتے ہیں۔ مسرت نذیر کا نام پاکستان کی موسیقی کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

More

Comments
1000 characters