مٹی کے برتنوں سے،جو ہماری نانی دادی کے پسندیدہ برتن ہوا کرتے تھے، لے کر لوہے کی کڑاہی تک، جن کے متعلق ہماری مائیں کہتی ہیں کہ یہ بہت فائدہ مند ہے، اور پھر نان اسٹک برتنوں تک ہمارے کچن مختلف قسم کے سازو سامان سے بھرے پڑے ہیں۔ اور ہم انٹڑ نیٹ پر جو کچھ دیکھتے ہیں ،اس کی بنیاد پر ان میں ردوبدل کرتے رہتے ہیں۔

ایک دن سوشل میڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ المونیم سے بنے برتن صحت کے لیے نقصان دہ ہیں،اور ہمارے کچن سے سارے المونیم کے برتن آنا فانا غائب ہو جاتے ہیں۔ اور اگلے دن، انسٹاگرام نان اسٹک برتنوں کے خلاف ہوجاتا ہے، تو ہم بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کس مٹیریل کا برتن کھانا بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے؟ ماہرین کے پاس آپ کے اس سوال کا جواب موجود ہے۔

ماہرین کے مطابق آپ جس قسم کے برتن میں کھانا پکا تے ہیں،وہ آپ کے کھانوں کے ذائقے کو بدل سکتا ہے۔

کیونکہ مختلف قسم کے مٹیریل سے تیار شدہ برتن ہیٹ کو مختلف انداز سے جذب کرتے ہیں اور یہ آپ کے کھانوں کے پکانے اور اس کے ذائقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ماہرین غذا کے مطابق جن برتنوں میں کھانا پکایا جا تا ہے اور پیش کیا جاتا ہے ،اس کی یقینا اہمیت ہے ،کیونکہ آپ جو کھاتے ہیں وہ آپ کی شخصیت اور صحت میں نظر آتا ہے ۔ ان ماہرین کےمطابق پیٹ خراب ہونے کے اکثر مسائل میں کسی نہ کسی طرح ان برتنوں کا بھی کردار ہوتا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ درست برتنوں کا انتخاب ضروری ہے۔ کیونکہ بعض کیمیائی مواد انکے ذریعےکھانوں میں شامل ہو کر صحت کےمسائل پیدا کر سکتے ہیں ،جن میں الزائمر کی بیماری، انیمیایا سانس کے مسائل شامل ہیں۔ اس کے لیے ایسے برتنوں کا انتخاب مناسب ہے ،جو ان خطرات کو کم سے کم کر سکے۔

ماہرین ایسے برتنوں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں جو معیار کی مکمل جانچ پرتال کے ساتھ بنائے گئے ہوں ۔ اس ضمن میں وہ آئرن کک ویئر کے انتخاب کو بہترین کہتے ہیں ،جو کسی بھی قسم کے نقصان دہ اثرات سے پاک ہیں اوران میں کھانا جلدی بن جاتا ہے۔ نیز اس کے اندر موجود آئرن کھانے میں جذب ہو کر ہمارے جسم کے اندر داخل ہوجا تا ہے جو صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

محفوظ کھانا بنانے کے لیے ایک اور بہترین آپشن مٹی کے برتن ہیں۔ مٹی کے برتن آج کل کھانا پکانے کے مخصوص انداز کی وجہ سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔

وریں اثنا ماہرین ٹیفلون لیپ شدہ نان اسٹک برتنوں اور ایلموینیم کے برتنوں سے پرہیز کہتے ہیں۔

More

Comments are closed on this story.