صدقۃ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ عیدالفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔
نبی اکرمﷺ کی حدیث ہے کہ صدقۃ الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے۔
شریعہ بورڈ کی جانب سے پاکستان میں صدقہ فطر کے حوالے سے رقم مختص کر دی گئی ہے اور فطرانہ عید کی نماز سے قبل دینا لازمی ہے، تاہم کچھ لوگ عید کی نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا نہیں کرپاتے، ایسے میں سوال کیا جاتا ہے کہ صدقۃ الفطر یا فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا تو کیا کرنا ہوگا؟
اس سوال کا جواب جامعہ بنوریہ کے فتوی نمبر 144201200401 میں دیا گیا ہے۔
فتوے میں لکھا گیا ہے کہ ’صدقہ فطر عید الفطر کی نماز سے پہلے ادا کردینا چاہیے، اگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا نہ کیا تو بھی صدقہ فطر ذمہ پر باقی رہتا ہے، اور عید کے بعد بھی وہ صدقہ فطر ادا کرنا ذمہ پر باقی رہے گا‘۔
صدقۃ الفطر کسے دیا جائے؟
اس حوالے سے فتوے میں لکھا گیا کہ ’صدقہ فطر کا مستحق وہ فقیر اور نادار شخص ہے جو زکوٰۃ کا مستحق ہو، یعنی ایسا مسلمان شخص جو سید/ ہاشمی بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان بھی نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچ جائے۔ اپنے اطراف میں ایسے کسی مستحق کو تلاش کر کے اس کو صدقہ فطر کی رقم ادا کر دیں تو آپ کا ذمہ ختم ہوجائے گا‘۔
Comments are closed on this story.