دنیا میں ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جس کا دعویٰ تھا کہ وہ سنہ 1921 میں کوما میں جانے کے بعد 2 ہزار سال مستقبل میں بیدار ہوا، اس نے اپنی ڈائری میں ان تمام واقعات کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہونے والے لینگویج کے پروفیسر پال امادیس ڈائیناچ زندگی بھر خراب صحت کا شکار رہے اور 1921 میں ایک سال کیلئے کوما میں چلے گئے۔ لیکن جب وہ آخرکار 12 مہینوں بعد صحت یاب ہوکر کوما سے ایک دوسری شخصیت کے طور پر جاگے۔

پال کا کہنا تھا کہ ان کی روح کسی طرح سال 3906 میں رہنے والے ایک شخص کے جسم میں منتقل ہوگئی تھی۔

اپنی ایک ڈائری میںانہوں نے مریخ پر آبادی، ایک تباہ کن جوہری جنگ اور ایک عالمی حکومت کے قیام کے بارے میں لکھا جس نے انسانیت کے لیے ایک نئے سنہری دور کا آغاز کیا۔

پال نے اپنی ڈائری اپنے پسندیدہ طالب علم جارجیوس پاپاہاٹسز کو بھیجی، جو بعد میں قانون کے ممتاز پروفیسر اور یونان کی پینٹیون یونیورسٹی کے ریکٹر بنے تھے۔

 پال نے اپنی ڈائری اپنے پسندیدہ طالب علم جارجیوس پاپاہاٹسز کو بھیجی، جو بعد میں قانون کے ممتاز پروفیسر اور یونان کی پینٹیون یونیورسٹی کے ریکٹر بنے تھے
پال نے اپنی ڈائری اپنے پسندیدہ طالب علم جارجیوس پاپاہاٹسز کو بھیجی، جو بعد میں قانون کے ممتاز پروفیسر اور یونان کی پینٹیون یونیورسٹی کے ریکٹر بنے تھے

”کاسموس لیب“ نامی پوڈ کاسٹ میں بتایا گیا کہ خرابی صحت کے دوران پال نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ اپنے ایک طالب علم جارجیوس پاپاہٹزس کو سونپے، ’جیسے ہی پاپاہٹزس نے نوٹس کا ترجمہ کرنا شروع کیا تو انہوں نے اس مواد کو غیر متوقع پایا‘۔

ان صفحات میں جوہری تنازعہ، مریخ کی ممکنہ نوآبادیات، ایک عالمی حکومت کے خیال اور مستقبل کی ٹیکنالوجیز جیسے کہ اڑنے والی گاڑیاں، ہولوگرافک ڈسپلے اور یہاں تک کہ خلائی مخلوق کے ساتھ رابطے کے بارے میں تفصیلی اقتباسات شامل تھے۔

ابتدائی طور پر، پاپاہٹزس نے ان انکشافات کو محض سائنس فکشن قرار دے کر مسترد کر دیا۔ تاہم، جیسے جیسے وہ متن میں گہرائی تک گئے انہیں دھیرے دھیرے احساس ہوا کہ جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں افسانوی کہانیاں سمجھا تھا، وہ درحقیقت پال کی ڈائری کے اندراجات تھے۔

پال نے اپنے دعووں میں بتایا کہ کس طرح وہ کوما میں جانے کے بعد ایک نامعلوم ہسپتال میں بیدار ہوئے۔

پال نے کہا کہ میں نے پریشان ہو کر ڈاکٹروں سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا ہو رہا ہے لیکن میں ان کے جوابات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔

آخر کار، وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے محسوس کیا کہ پال جرمن بول رہا ہے اور اس نے پال کو بتایا کہ وہ درحقیقت اینڈریاس نورم نامی فزکس کا ایک مشہور پروفیسر ہے اور ایک سنگین حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔

پال نے اٹھ کر آئینے میں دیکھا اور اپنی جگہ ایک غیر مانوس چہرہ پایا۔

پوڈ کاسٹ میں تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ’شک اور بے اعتباری کے ساتھ پال نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ آسمانی عمارتیں بادلوں تک بلند ہیں اور گاڑیاں ان کے چاروں طرف اڑتے ہوئے کشش ثقل کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔‘

پال سوچنے لگا کہ کیا وہ مر گیا ہے اور کیا یہ جنت ہے؟ اسی وقت، ڈاکٹروں نے اس کا علاج زخمی طبیعیات دان کے طور پر کیا، اور اس کے 1921 میں انتقال کر جانے کے دعووں کو اس کی سر کی چوٹ کی علامات کے طور پر قبول کیا۔

اس نے رات کے بعد ایک ہولوگرافک ڈیوائس دیکھی جو 21ویں صدی کی تاریخ دکھا رہی تھی۔

پوڈ کاسٹ کے مطابق، آنے والے دنوں میں وہ گھومنے پھرنے لائق مضبوط ہو گیا۔

پال نے اپنے اردگرد کے ماحول کو واضح طور پر بیان کیا اور کرسٹل سے بنی دیواروں کے بارے میں بات کی جس نے اسے مناظر کا وسیع نظارہ دیا۔ اس نے گرم، نرم رنگ کی چمکتی ہوئی دھات سے بنی اشیاء کو بھی دیکھا۔

پال نے مستقبل کے اس دور میں تاریخی تحاریر آئی پیڈ جیسی ریگن شواگر نامی ایک قابل ذکر ڈیوائس پر پڑھیں۔

جب وہ اپنے مستقبل میں موت کے قریب پہنچنے کے بعد واپس اپنے وقت میں بیدار ہوا تو اس نے اتنا ہی لکھا جتنا اسے یاد تھا۔

اس کی موت کے بعد، پال کی ڈائریوں کو ایک کتاب میں جمع کیا گیا۔

پال نے لکھا کہ دوسری صدی کے پہلے 300 سال زیادہ آبادی، ماحولیاتی بحران، خوراک کی قلت اور دنیا بھر میں جنگوں سے متاثر ہوئے۔

پال کے مطابق 2200 کی دہائی میں مریخ پر کالونی قائم کرنے کی کوشش پہلے تو پروان چڑھی، لیکن ماحولیاتی تباہی کے باعث ختم ہوگئی جس نے تمام نوآبادیات کو ہلاک کر دیا۔

پال کے مطابق،2309 میں چین اور مغرب کے درمیان جوہری جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور بڑے پیمانے پر ہجرتیں ہوئیں اور لوگ فال آؤٹ زونز سے دور ہوئئے۔ حتمی نتیجہ ایک عالمی حکومت کا قیام تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جنگ کی ہولناکی کبھی نہ دہرائی جائے۔

پال نے مزید لکھا کہ یہ نظریہ عالمی سطح پر مقبول نہیں ہے، اور سب کی جانب سے علیحدہ ممالک کے خیال کو ترک کرنے کے لیے تیار ہونے میں سیکڑوں سال لگ جاتے ہیں۔

لیکن اپنی سب سے پاگل پن بھری پیش گوئی میں، پال نے لکھا کہ سنہ 3382 میں، انسانی دماغ میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہوجائیں گی جو ایک نئے احساس یا صلاحیت کو جنم دیں گی، جسے ہائپر ویژن کہا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے سوچنے کے انداز کو بدل دیتا ہے۔

دس صدیوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے ”تاریک دور“ کے بعد پال نے دعویٰ کیا کہ انسانیت کے لیے ایک عظیم نیا سنہری دور سال 3400 میں شروع ہوگا، جس میں دنیا بھر میں باقی ماندہ اربوں انسان امن اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس دور کے مستقبل کے لوگ ’بے فکر بچوں کی طرح تھے، جو پریشانیوں یا خوفوں سے آزاد تھے۔‘

More

Comments are closed on this story.