ہوائی کے جنگلات میں حالیہ دنوں میں ڈرون کے ذریعے ہزاروں مچھر گرائے جا رہے ہیں۔ لیکن مچھر چھوڑنا یہاں تباہی نہیں بلکہ تحفظ کی علامت ہے اور یہ فطرت کو بچانے کی ایک جدید کوشش ہے۔
یہ کوئی خطرناک یا خوفناک تجربہ نہیں بلکہ ایک اہم سائنسی مہم ہے جس کا مقصد وہاں کی خوبصورت نایاب پرندوں کی نسل کو بچانا ہے۔
شارکس کونسے صدیوں پرانے ریاضی کے اصول پر عمل کررہی ہیں؟
ہوائی کی جنت نظیر وادیوں میں رنگ برنگے گیت گانے والے پرندے ہنی کریپرز (Honeycreepers) تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کی نسل کو سب سے بڑا خطرہ ایویئن ملیریا (avian malaria) سے ہے، جو ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔
بنیادی طور پر یہ مچھر دراصل ہوائی کے قدرتی ماحول کا حصہ نہیں بلکہ 1826 میں ایک جہاز کے ذریعے یہاں آ پہنچے تھے اور پھر گرم اور مرطوب موسم میں تیزی سے پھیل گئے اور بڑھنے لگے۔
بابا وانگا کی خطرناک پیشگوئی: ایک ڈیوائس ہر عمر کے انسانوں میں کئی بیماریوں کا باعث بنے گی
سائنسدانوں نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔ لیبارٹری میں تیار کیے گئے ایسے نر مچھر جو نہ کاٹ سکتے ہیں اور نہ ہی افزائش نسل میں کامیاب ہوتے ہیں، انہیں ڈرونز کے ذریعے ان علاقوں میں چھوڑا جا رہا ہے جہاں ہنی کریپرز رہتے ہیں۔
یہ نر مچھر خاص بیکٹیریا سے متاثر ہوتے ہیں جو مچھر کی تولیدی صلاحیت میں خلل ڈال دیتا ہے۔ جب یہ مچھر قدرتی مادہ مچھروں کے ساتھ جفت گیری کرتے ہیں، تو ان کے انڈے بارآور نہیں ہو پاتے۔
پاک افغان بارڈر پر پُراسرار شے کی پرواز، امریکی فوج نے ویڈیو جاری کردی
اس طرح وقت کے ساتھ کاٹنے والے مچھروں کی تعداد کم ہو جاتی ہے، اور پرندوں کو ملیریا سے بچایا جا سکتا ہے۔
یہ مہم ”برڈز، ناٹ موسکیٹوز“ (Birds, Not Mosquitoes) نامی تنظیم چلا رہی ہے، جو ہوائی کے نایاب پرندوں کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے اب تک (نومبر 2023 سے)، ماؤئی اور کاؤآئی کے جنگلات میں 4 کروڑ سے زائد نر مچھر چھوڑے جا چکے ہیں۔
کرس فارمر، جو امریکن برڈ کنزرویسی سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہےکہ، “یہ ایک نظر نہ آنے والی رکاوٹ کی طرح کام کرتا ہے، جو مچھروں کو ان جنگلات تک پہنچنے سے روکتی ہے جہاں یہ نایاب پرندے رہتے ہیں۔
اگر ہم نے ان مچھروں کی آبادی میں خاطر خواہ کمی نہ کی، تو باقی بچے ہوئے 17 میں سے بھی کئی اقسام ہمیشہ کے لیے ناپید ہو جائیں گی۔“
فی الحال، سائنسدان اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ طریقہ کب اور کیسے مکمل اثر دکھائے گا۔ مگر امید ہے کہ اگر مچھروں کی آبادی مسلسل کم ہوتی گئی تو ہوائی کے یہ نایاب پرندے ایک بار پھر چہچہانے لگیں گے۔
یہ سائنسی حکمتِ عملی ماحول دوست، قدرتی اور بغیر کسی دوا یا زہریلے مواد کے کام کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ طریقہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی استعمال ہو، جہاں مچھر بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں۔